قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 93
لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّأَحْسَنُواْ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، اور نیکی پر کاربند رہے ہیں ، انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا ہے، اس کی وجہ سے ان پرکوئی گناہ نہیں ہے، بشرطیکہ وہ آئندہ ان گناہوں سے بچتے رہیں ، اور ایمان رکھیں اور نیک عمل کرتے رہیں، پھر (جن چیزوں سے آئندہ روکا جائے ان سے) بچا کریں ، اور ایمان پر قائم رہیں، اور اس کے بعد بھی تقویٰ اور احسان کو اپنائیں ۔ اﷲ احسان پر عمل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
اب جو اگلی آیت آ رہی ہے یہ بھی قرآن مجید کے فلسفہ اورحکمت کے ضمن میں بہت بنیادی آیت ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب شراب کے بارے میں اتنا سخت انداز آیا کہ شراب اور جوا گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے باز آتے ہو یا نہیں؟ تو بہت سے مسلمانوں کو تشویش لاحق ہو گئی کہ ہم جو اتنے عرصے تک شراب پیتے رہے تو یہ گندگی تو ہماری ہڈیوں میں بیٹھ گئی ہو گی۔ آج سائنس کی زبان میں جیسے کوئی شخص کہے کہ میرے جسم کا تو کوئی ایک خلیہ (cell) بھی ایسا نہیں ہو گا جس میں شراب کے اثرات نہ پہنچے ہوں۔ تو اب ہم کیسے پاک ہوں گے؟ اب کس طریقے سے یہ گندگی ہمارے جسموں سے دُھلے گی؟ ان کی یہ تشویش بجا تھی۔ جیسے تحویل ِقبلہ کے وقت تشویش پیدا ہو گئی تھی کہ اگر اصل قبلہ بیت اللہ تھا اور ہم بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نمازیں پڑھتے رہے تو وہ نمازیں تو ضائع ہو گئیں، اور نماز ہی تو ایمان ہے۔ تو اس پر مؤمنین کی تسلی کے لیے فرمایا گیا تھا: وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَـکُمْ. ،،اللہ تمہارے ایمان کوضائع کرنے والا نہیں ہے،،۔ ایسے ہی یہاں ان کی دل جوئی کے لیے فرمایا :
آیت 93: لَـیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا: ،،ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے کوئی گناہ نہیں ہے اس میں جو وہ (پہلے) کھا پی چکے،،
کسی شے کی حرمت کے قطعی حکم آنے سے پہلے جو کچھ کھایا پیا گیا، اس کا کوئی گناہ ان پر نہیں رہے گا۔ یہ کوئی ہڈیوں میں بیٹھ جانے والی شے نہیں ہے، یہ تو شرعی اور اخلاقی قانون (Moral Law) کا معاملہ ہے، طبعی قانون (Physical Law) کا نہیں ہے۔ طبعی (Physical) طور پر تو کچھ چیزوں کے اثرات واقعی دائمی ہو جاتے ہیں، لیکن Moral Lawکا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ گناہ تو اُحد پہاڑ کے برابر بھی ہوں تو سچی توبہ سے بالکل صاف ہو جاتے ہیں ۔ ازروئے حدیث نبوی: «اَلـتَّائِبُ مِنَ ا لذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَـہ» ،،گناہ سے حقیقی توبہ کرنے والا بالکل ایسے ہے جیسے اس نے کبھی وہ گناہ کیا ہی نہیں تھا،،۔ صدقِ دل سے توبہ کی جائے تو نامہ اعمال بالکل دھل جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی کسی تشویش کو بالکل اپنے قریب مت آنے دو۔
اِذَا مَا اتَّـقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ: ،،جب تک وہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، پھر مزید تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں ، پھر اور تقویٰ میں بڑھیں اور درجہ احسان پر فائز ہو جائیں ۔ اور اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کرتا ہے۔ ،،
یہ دراصل تین درجے ہیں ۔ پہلا درجہ «اسلام» ہے۔ یعنی اللہ کو مان لیا، رسول کو مان لیا اور اس کے احکام پر چل پڑے۔ اس سے اوپر کا درجہ «ایمان» ہے، یعنی دِل کا کامل یقین، جو ایمان کے دل میں اُتر جانے سے حاصل ہوتا ہے۔ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَـیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّـنَہ فِیْ قُلُوْبِکُمْ. ( الحجرات: 7) کے مصداق ایمان قلب میں اُتر جائے گا تو اعمال کی کیفیت بدل جائے گی، اعمال میں ایک نئی شان پیدا ہو جائے گی، زندگی کے اندر ایک نیا رنگ آ جائے گا جو کہ خالص اللہ کا رنگ ہو گا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً. (البقرۃ: 138)۔ اور اس سے بھی آگے جب ایمان «عین الیقین» کا درجہ حاصل کر لے تو یہی درجہ احسان ہے۔ حدیث ِ نبوی میں اس کی کیفیت یہ بیان ہوئی ہے: «اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہ یَرَاکَ» ،،یہ کہ تواللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تواسے دیکھ رہا ہے، اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو پھر (یہ کیفیت تو پیدا ہونی چاہیے کہ) وہ توتجھے دیکھتا ہے،،۔ یعنی تم اللہ کی بندگی کرو، اللہ کے لیے جہاد کرو، اس کی راہ میں بھاگ دوڑ کرو، اور اس میں تقویٰ کی کیفیت ایسی ہو جائے کہ جیسے تم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔
احسان کی یہ تعریف ،،حدیث ِجبرائیل،، میں موجود ہے۔ اس حدیث کو «اُمّ السُّنَّۃ» کہا گیا ہے، جیسے سورۃ الفاتحہ کو اُمّ القرآن کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح سورۃ الفاتحہ اساس القرآن ہے، اسی طرح حدیث ِجبرائیل سنت کی اساس ہے۔ ا س حدیث میں ہمیں یہ تفصیل ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل dانسانی شکل میں حضور کے پاس آئے۔ صحابہ کا مجمع تھا، وہاں انہوں نے کچھ سوالات کیے۔ حضرت جبرائیل نے پہلا سوال اسلام کے بارے میں کیا: یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ! اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ،،اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ اد اکرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تمہیں اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو،،۔ یعنی اسلام کے ضمن میں اعمال کا ذکر آ گیا۔ پھر جبرائیل نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے! اس پر آپ نے فرمایا: ،،یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، یومِ آخرت پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر،،۔ اب یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ ایمان تو اسلام میں بھی موجود ہے، یعنی زبانی اور قانونی ایمان، لیکن دوسرے درجے میں ایمان کو اسلام سے علیحدہ کیا گیا ہے اور اعمالِ صالحہ کا تعلق ایمان کے بجائے اسلام سے بتایا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایمان دل میں اُتر کر یقین کی صورت اختیار کر جائے تو پھر اعمال کا ذکر الگ سے کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایمان کے اس مرحلے پر اعمال لازماً درست ہوجائیں گے۔ پھر ایمان جب دل میں مزید گہرا اور پختہ ہوتا ہے تو اعمال بھی مزید درست ہوں گے۔ یوں سمجھئے کہ جتنا جتنا درخت اوپر جا رہا ہے اسی نسبت سے جڑ نیچے گہرائی میں اتر رہی ہے۔ ایمان کی جڑ نے دل کی زمین میں قرار پکڑا تو اسلام سے ایمان بن گیا۔ جب یہ جڑ مزید گہری ہوئی تو تیسری منزل یعنی احسان تک رسائی ہو گئی اور یہاں اعمال میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ چنانچہ جب حضرت جبرائیل نے احسان کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ،،احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو …،، آپ کا جواب تین روایتوں میں تین مختلف الفاظ میں نقل ہوا ہے: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ … اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَاَنَّکَ تَرَاہُ … اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَاَنَّکَ تَرَاہُ۔ اگلے الفاظ: «فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّـہ یَرَاکَ» تینوں روایتوں میں یکساں ہیں۔ یعنی ایک بندہ مؤمن اللہ کی بندگی، اللہ کی پرستش، اللہ کے لیے بھاگ دوڑ، اللہ کے لیے عمل، اللہ کے لیے جہاد ایسی کیفیت سے سرشار ہو کر کر رہا ہو گویا وہ اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو جب اللہ سامنے ہو گا، تو پھر کیسے کچھ ہمارے جذبات عبدیت ہوں گے، کیسی کیسی ہماری قلبی کیفیات ہوں گی۔ اس دنیا میں بھی یہ کیفیت حاصل ہو سکتی ہے، لیکن یہ کیفیت بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو احسان کا ایک اس سے نچلا درجہ بھی ہے۔ یعنی کم از کم یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ ہیں وہ تین درجے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔
،،تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں ،، مولانا مودودی مرحوم کی ایک قابل قدر کتاب ہے۔ اس میں مولانا نے اسلام، ایمان، احسان اور تقویٰ چار مراتب بیان کیے ہیں ۔ لیکن میرے نزدیک تقویٰ علیحدہ سے کوئی مرتبہ ومقام نہیں ہے۔ تقویٰ وہ روح (spirit) اور وہ قوتِ محرکہ (driving force) ہے جو انسان کو نیکی کی طرف دھکیلتی اور اُبھارتی ہے۔ چنانچہ آیت زیر نظر میں تقویٰ کی تکرار کا مفہوم یوں ہے کہ تقویٰ نے آپ کو baseline سے اوپر اٹھایا اور اب آپ کے ایمان اور عمل صالح میں اور رنگ پیدا ہو گیا: اِذَا مَا اتَّـقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔ پھر تقویٰ میں مزید اضافہ ہوا اور تقویٰ نے آپ کو مزید اوپر اٹھایا تو اب وہ یقین والا ایمان پیدا ہو گیا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا۔ اب یہاں عمل صالح کے علیحدہ ذکر کی ضرورت ہی نہیں ۔ جب دل میں ایمان اُتر گیا تو اعما ل خود بخود درست ہو گئے۔ پھر تقویٰ اگر مزید روبہ ترقی ہے ثُمَّ اتَّـقَوْا: تو اس کے نتیجے میں وَاَحْسَنُوْا: کا درجہ آ جائے گا، یعنی انسان درجہ احسان پر فائز ہو جائے گا۔ (اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین!)
ایمان اور تقویٰ سے اعمال کی درستی کے ضمن میں نبی اکرم کا یہ فرمان پیش نظر رہنا چاہیے :
«اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً، اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُُ کُلُّہ، وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُکُلُّہ، اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ»
،،آگاہ رہو، یقینا جسم کے اندر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، جب وہ درست ہو تو سارا جسم، درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔ ،،
وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ: ،،اور اللہ ایسے محسن بندوں کو محبوب رکھتا ہے۔ ،،
اللہ کے جو بندے درجہ احسان تک پہنچ جاتے ہیں وہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں ۔
اس سورہ مبارکہ (آیت: 71) میں پہلے ایک غلط راستے کی نشاندہی کی گئی تھی : فَعَمُوْا وَصَمُّوْا… ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا…: یہ گمراہی و ضلالت کے مختلف مراحل کا ذکر ہے کہ وہ اندھے اور بہرے ہو گئے، اللہ نے پھر ڈھیل دی تو اس پر وہ اور بھی اندھے اور بہرے ہو گئے، اللہ نے مزید ڈھیل دی تو وہ اور زیادہ اندھے اور بہرے ہو گئے۔ اُس راستے پر انسان قدم بہ قدم گمراہی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ مگرا یک راستہ یہ ہے، ہدایت کاراستہ، اسلام، ایمان، احسان، اور تقویٰ کا راستہ۔ یہاں انسان کو درجہ بہ درجہ ترقی ملتی چلی جاتی ہے۔