قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 91
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ
شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دُشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں اﷲ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے ؟
آیت 91: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِـعَ بَـیْـنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآء فِی الْْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ: ،،شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کر دے شراب اور جوئے کے ذریعے`سے،،
یہ بہت اہم بات ہے، کیونکہ شراب کے نشے میں انسان اپنا ہوش اور شعور کھو بیٹھتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کو کچھ خبر نہیں رہتی کہ وہ منہ سے کیا بکواس کر رہا ہے اور اس کے اَعضاء و جوارح سے کیا افعال سرزد ہو رہے ہیں ، لہٰذا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسی حالت میں کسی بات یا کسی حرکت سے کیا کیا گُل کھلیں گے، کیسے کیسے جھگڑے اور فسادات جنم لیں گے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حکومتی اور ریاستی سطح کے بڑے بڑے راز شراب کے نشے میں چُرا لیے جاتے ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان چیزوں سے بچانا چاہتا ہے، جبکہ شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے مابین عداوت اور بغض پیدا کرے۔ اسی طرح جوئے سے بھی بغض و عداوت کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔ مثلاً ایک آدمی جوئے میں ہار جاتا ہے، پھر پے در پے ہارتا چلا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ پھٹ پڑتا ہے اور غصّے میں آگ بگولا ہو کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ اسے نظر آ رہا ہے کہ میرا جوحریف مجھ سے جیت رہا ہے وہ کسی محنت کی وجہ سے نہیں جیت رہا۔ کسی نے محنت اور کوشش سے کچھ کمایا ہوتو اس سے دوسرے کو جلن محسوس نہیں ہوتی، لیکن جوئے میں بے محنت کی کمائی ہوتی ہے جسے مخالف فریق برداشت نہیں کر سکتا، اور اس طرح انسانی تعلقات میں کئی منفی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں ۔
وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ: ،،اور (شیطان یہ بھی چاہتا ہے کہ) تمہیں روکے اللہ کی یاد سے اور نماز سے۔ ،،
اللہ کے ذکر اور نماز سے روکنے والا معاملہ بھی شراب کا تو بالکل واضح ہے، لیکن جوئے میں بھی یونہی ہوتا ہے کہ آدمی ایک بار اس میں لگ جائے تو پھر وہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ تاش اور شطر نج وغیرہ بھی ایسے کھیل ہیں کہ ان میں مشغول ہو کر انسان ذکر اور نماز جیسی چیزوں سے بالکل غافل ہو جاتا ہے۔
فَہَلْ اَنْـتُمْ مُّـنْـتَہُوْنَ : ،،تو اب باز آتے ہو یا نہیں؟،،
یہ انداز بڑا سخت ہے اوراس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ شراب اور جوئے کے بارے میں ایک واضح ہدایت قبل ازیں آ چکی تھی: فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا. (البقرۃ :219 ) ،،ان دونوں کے اندر بہت بڑے گناہ کے پہلو ہیں ، اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں ، البتہ ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑا ہے،،۔ تو اسی وقت تمہیں سمجھ لینا چاہیے تھا اور باز آ جانا چاہیے تھا۔ اُس پہلے حکم میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت، مشیّت اور شریعت کا رخ تو واضح ہو گیا تھا۔ پھر اگلا قدم اٹھایا گیا اور حکم دیا گیا: ،،جب تم لوگ شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ…،، (النساء: 43)۔ اس سے تو پورے طور سے واضح ہو جانا چاہیے تھا کہ دین کا اہم ترین ستون نماز ہے: «اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ» اور یہ شراب نماز سے روک رہی ہے، تو تمہیں یہ چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ بہر حال اب آخری بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ گئی ہے، تو اسے سن کر کیا اب بھی باز نہیں آؤ گے؟