قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 82
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ قَالُوَاْ إِنَّا نَصَارَى ذَلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ
تم یہ بات ضرور محسوس کر لوگے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں ، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں ۔ اور تم یہ بات بھی ضرور محسوس کرلوگے کہ (غیر مسلموں میں ) مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نصرانی کہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے علم دوست عالم اور بہت سے تارک الدنیا درویش ہیں، نیز یہ وجہ بھی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے
آیت 82: لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا: ،،تم لازما ًپاؤ گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں ۔ ،،
یہ بہت اہم آیت ہے۔ مکہ کے مشرکین بھی مسلمانوں کے دشمن تھے، لیکن ان کی دشمنی کم از کم کھلی دشمنی تھی، ان کا دشمن ہونا بالکل ظاہر و باہر تھا، وہ سامنے سے حملہ کرتے تھے۔ لیکن مسلمانوں سے بد ترین دشمنی یہود کی تھی، وہ آستین کے سانپ تھے اور سازشی انداز میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں مشرکین ِمکہ سے کہیں آگے تھے۔ آج بھی یہود اور ہنود مسلمانوں کی دشمنی میں سب سے آگے ہیں ، کیونکہ اس قسم (بت پرستی) کا شرک تو اب صرف ہندوستان میں رہ گیا ہے، اور کہیں نہیں رہا۔ ہندوستان کے بھی اب یہ صرف نچلے طبقے میں ہے جبکہ عام طور پر اوپر کے طبقے میں نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اب بھی مسلمانوں کے خلاف یہود اور ہنود کا گٹھ جوڑ ہے۔
وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی: ،،اور تم لازماً پاؤ گے مودّت کے اعتبار سے قریب ترین اہل ِایمان کے حق میں اُن لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں ۔ ،،
یہ تاریخی حقیقت ہے اور سیرت ِمحمد سے ثابت ہے کہ جس طرح کی شدید دشمنی اُس وقت یہود نے آپ سے کی ویسی نصاریٰ نے نہیں کی۔ حضرت نجاشی (شاہِ حبشہ) نے اُس وقت کے مسلمان مہاجروں کو پناہ دی، مقوقس (شاہِ مصر) نے بھی حضور کی خدمت میں ہدیے بھیجے۔ ہرقل نے بھی حضورکے نامہ ٔمبارک کا احترام کیا۔ وہ چاہتا بھی تھا کہ اگر میری پوری قوم مان لے تو ہم اسلام قبول کر لیں ۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، جس کا ذکر سورہ آل عمران (آیت: 61) میں ہم پڑھ چکے ہیں ۔ وہ لوگ اگرچہ مسلمان تو نہیں ہوئے مگر ان کارویّہ انتہائی محتاط رہا۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ حضور کے زمانے میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی مخالفت میں وہ شدت نہ تھی جو یہودیوں کی مخالفت میں تھی۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّـہُمْ لاَ یَسْتَـکْبِرُوْنَ: ،،یہ اس لیے کہ ان (عیسائیوں ) میں عالم بھی موجود ہیں اور درویش بھی اور(اس لیے بھی کہ) وہ تکبر نہیں کرتے۔ ،،
یعنی عیسائیوں میں اُس وقت تک علمائے حق بھی موجود تھے اور درویش راہب بھی جو واقعی اللہ والے تھے۔ بحیرہ راہب عیسائی تھا جس نے حضور کو بچپن میں پہچانا تھا۔ اسی طرح ورقہ بن نوفل نے حضور کی سب سے پہلے تصدیق کی تھی اور بتا یا تھا کہ اے محمد آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو اس سے پہلے حضرت موسٰی اور حضرت عیسی پر نازل ہوا تھا۔ ورقہ بن نوفل تھے تو عرب کے رہنے والے، لیکن وہ حق کی تلاش میں شام گئے اور عیسائیت اختیار کی۔ وہ عبرانی زبان میں تورات لکھا کرتے تھے۔ یہ اُس دور کے چند عیسائی علماء اور راہبوں کی مثالیں ہیں۔ لیکن وہ قِسِّیسِین اور رُہْبان اب آپ کو عیسائیوں میں نہیں ملیں گے، وہ دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب قرآن نازل ہو رہا تھا۔ اس کے بعد جو صورتِ حال بدلی ہے اور صلیبی جنگوں کے اندر عیسائیت نے جو وحشت و بربریت دکھائی ہے، اور عیسائی علماء اور مذہبی پیشواؤں نے جس طرح مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے اور اپنی قوم سے اس سلسلے میں جو کارنامے انجام دلوائے ہیں وہ تاریخ کے چہرے پر بہت ہی بد نما داغ ہے۔ ّ