July 10, 2025

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 69

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالصَّابِؤُونَ وَالنَّصَارَى مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وعَمِلَ صَالِحًا فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ 

حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے

ٓیت 69:   اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِؤنَ وَالنَّصٰرٰی:   ،،بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے، اور وہ لوگ جو یہودی،  صابی،  اور نصاریٰ (عیسائی)  ہوئے،،

            اس آیت میں  تقریباً وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے سورۃ البقرۃ کے آٹھویں  رکوع (آیت: 62)  میں  آ چکا ہے،  جس سے بعض لوگوں  کو دھوکا ہوتا ہے کہ شاید نجات کے لیے ایمان بالرسالت کی ضرورت نہیں  ہے،  حالانکہ سورۃ النساء (آیات 50، 51 اور 52)  میں  اللہ اور اس کے رسول کے مابین تفریق کرنے والوں  کے لیے بہت واضح انداز میں  فرمایا گیا ہے:  اُوْلٰٓـئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا.  ،،وہی لوگ تو پکے کافر ہیں۔،،  دوسری بات یہاں  ذہن میں  یہ رکھیے کہ ان تما م سورتوں  میں  محمد رسول اللہ پر ایمان لانے کی دعوت قدم قدم پر ہے،  بار بار ہے،  لہٰذا اس سے استغناء کا کوئی جواز رہتا ہی نہیں ،  سوائے اس کے کہ کسی کی نیت میں  فساد ہو اور دل میں  کجی پیدا ہو چکی ہو۔  

             مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وعَمِلَ صَالِحًا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ:  ،،(اپنے اپنے زمانے میں  جس قوم اور جس گروہ سے)  جو کوئی ایمان لایا اللہ پر اور یوم آخرت پر اور اُس نے اچھے عمل کیے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غم سے دو چار ہوں  گے۔ ،،

             یہاں وہ تمام لوگ مراد ہیں جو اپنے اپنے دور میں  اللہ اور آخرت پر ایمان و یقین رکھتے تھے اور اپنے وقت کے نبی اور گزشتہ انبیاء پر ایمان رکھتے تھے۔  جیسے حضرت مسیح  سے ما قبل زمانہ میں  یہودی تھے،  جو کتاب اللہ تورات پر یقین رکھتے تھے،  حضرت موسٰی کو مانتے تھے،  دوسرے نبیوں  کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے۔  لیکن عمل کے معاملے میں  اصل چیز اور اصل بنیاد اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کی جزا طلبی ہے،  جس سے کوئی عمل،  عمل ِصالح بنتا ہے۔  

UP
X
<>