قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 68
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَى شَيْءٍ حَتَّىَ تُقِيمُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
کہہ دو کہ : ’’ اے اہلِ کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل پر اورجو (کتاب) تمہارے پاس (اب) بھیجی گئی ہے اس کی پوری پابندی نہیں کرو گے، تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہوگی جس پر تم کھڑے ہو سکو۔ ‘‘ اور (اے رسول !) جو وحی تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، لہٰذا تم ان کافر لوگوں پر افسوس مت کرنا
آیت 68: قُلْ یٰٓــاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلَی شَیئٍ: ،،(اے نبی) کہہ دیجیے: اے کتاب والو تم کسی چیز پر نہیں ہو،،
تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے، کوئی مقام نہیں ہے، کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے، تم ہم سے ہم کلام ہونے کے مستحق نہیں ہو۔
حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّورٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَــآ اُنْزِلَ اِلَــیْـکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ: ،،جب تک تم قائم نہ کرو تورات اور انجیل کو اور جو کچھ نازل کیا گیا ہے تم پر تمہارے رب کی طرف سے۔ ،،
اب اپنے لیے اس آیت کو آپ اس طرح پڑ ھ لیجیے: ،،یٰٓــاَہْلَ الْقُرآنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا الْـقُرْآنَ وَمَــآ اُنْزِلَ اِلَــیْـکُمْ مِّنْ رَّبِّـکُمْ،، اے قرآن کے ماننے والو! تمہاری کوئی حیثیت نہیں … تم سمجھتے ہو کہ ہم اُمت ِمسلمہ ہیں ، اللہ والے ہیں ، اللہ کے لاڈلے اور پیارے ہیں ، اللہ کے رسول کے اُمتی ّہیں ۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ذلت و خواری تمہارا مقدر بنی ہوئی ہے، ہر طرف سے تم پر یلغار ہے، عزت و وقار نام کی کوئی شے تمہارے پاس نہیں رہی۔ تم کتنی ہی تعداد میں کیوں نہ ہو، دنیا میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں ، اور اس سے زیادہ بے توقیری کے لیے بھی تیار رہو۔ ،، تمہاری کوئی اصل نہیں جب تک تم قائم نہ کرو قرآن کو اور اس کے ساتھ جو کچھ مزید تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے،،۔ قرآن وحی جلی ہے۔ اس کے علاوہ حضور کو وحی خفی کے ذریعے سے بھی تو احکامات ملتے تھے اور سنت ّرسول وحی خفی کا ظہور ہی تو ہے۔ تو جب تک تم کتاب و سنت کا نظام قائم نہیں کرتے، تمہاری کوئی حیثیت نہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ ،،یَا اَہْلَ الْقُرْآنِ،، کا خطاب خود حضورنے ہمیں دیا ہے۔ میرے کتابچے ،،مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق،، میں یہ حدیث موجود ہے جس میں حضور سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : َ
«یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ، وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہ مِنْ آنَاءِ اللَّــیْلِ وَالنَّھَارِ، وَأَفْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا ما فِیْہِ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ»
،،اے اہل قرآن، قرآن کو اپنا تکیہ نہ بنا لینا، بلکہ اسے پڑھا کرو رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی، جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے، اور اسے عام کرو اور خوش الحانی سے پڑھو اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ،،
وَلَـیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّــآ اُنْزِلَ اِلَـیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا: ،،لیکن (اے نبی) جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے آپ کے رب کی طرف سے یہ ان کے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں یقینا اضافہ کرے گا۔ ،،
ان کی سرکشی اور طغیانی میں اور اضافہ ہو گا، ان کی مخالفت اور بڑھتی چلی جائے گی، حسد کی آگ میں وہ مزید جلتے چلے جائیں گے۔
فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ: ،،تو آپ ان کافروں کے بارے میں افسوس نہ کریں ۔ ،،
نبی چونکہ اپنی اُمت کے حق میں نہایت رحیم و شفیق ہوتا ہے لہٰذا وہ لوگوں پر عذاب کو پسند نہیں کرتا اورقوم پر عذاب کے تصور سے اسے صدمہ ہوتا ہے۔ پھر خصوصاً جب وہ اپنی برادری بھی ہو، جیسا کہ بنی اسماعیل تھے، تو یہ رنج و صدمہ دو چند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب ان کے بارے میں سورہ یونس اور سورہ ہود میں عذاب کی خبریں آ رہی تھیں تو آپ بہت فکر مند اور غمگین ہوئے اور آپ کے بالوں میں یک دم سفیدی آ گئی۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق نے پوچھا، حضور کیا ہوا؟ آپ پر بڑھاپا طاری ہو گیا؟ تو آپ نے فرمایا :«شَیَّــبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَاَخَوَاتُـھَا» ،،مجھے سورہ ہود اور اس کی بہنوں (ہم مضمون سورتوں) نے بوڑھا کر دیا ہے،،۔ کیونکہ ان سورتوں کا انداز ایسا ہے کہ جیسے اب مہلت ختم ہوئی چاہتی ہے اور عذاب کا دھارا چھوٹنے ہی والا ہے۔