قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 54
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھِر جائے گا تو اﷲ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن سے وہ محبت کرتا ہو گا، اور اس سے محبت کرتے ہوں گے، جو مومنوں کیلئے نرم اور کافروں کیلئے سخت ہوں گے، اﷲ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ یہ اﷲ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرما تا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے
اب جو تین آیتیں آ رہی ہیں ان میں اُن اہل ِایمان کا ذکر ہے جو پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی توفیق دے کہ کمرہمت ِکس کر اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور اللہ تعالی ہمارے دلوں میں یہ احساس پیدا فرما دے کہ اُس کی شریعت کو نافذ کرنا ہے اور الکافِرون، الظالِمُون اور الفاسِقون (المائدۃ : 44، 45 اور 47) کی صفوں سے باہر نکلنا ہے۔ اس طرح کی ّجدوجہد میں محنت کرنا پڑتی ہے، مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں ، تکالیف سہنا پڑتی ہیں ۔ ایسے حالات میں بعض اوقات انسان کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اورعزم و ہمت میں کچھ کمزوری آنے لگتی ہے۔ ایسے موقع پر اس راہ کے مسافروں کی ایک خاص ذہنی اور نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ تین آیات نہایت اہم اور جامع ہیں ۔
آیت 54: یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْـکُمْ عَنْ دِیْنِہ: ،،اے ایمان والو! جو کوئی بھی پھر گیا تم میں سے اپنے دین سے،،
فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ: ،،تو اللہ (کو کوئی پرواہ نہیں، وہ) عنقریب (تمہیں ہٹا کر) ایک ایسی قوم کو لے آئے گا،،
یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہ: ،،جنہیں اللہ محبوب رکھے گا اوروہ اُسے محبوب رکھیں گے،،
اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ: ،،وہ اہل ِایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے،،
اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ: ،،کافروں پر بہت بھاری ہوں گے،،
یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ: ،،اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے،،
وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لآَئِمٍ: ،،اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں کریں گے۔،،
یہاں پر جو لفظ «یَرْتَدّ»َ آیا ہے اس کے مفہوم میں ایک تو قانونی اور ظاہری ارتداد ہے۔ جیسے ایک شخص اسلام کو چھوڑ کر کافر ہو جائے، یہودی یا نصرانی ہو جائے۔ یہ تو بہت واضح قانونی ارتداد ہے، لیکن ایک باطنی ارتداد بھی ہے، یعنی اُلٹے پاؤں پھرنے لگنا، پسپائی اختیار کر لینا۔ اوپر اسلام کا لبادہ تو جوں کا توں ہے، لیکن فرق یہ واقع ہو گیا ہے کہ پہلے غلبہ ٔدین کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے، محنتیں کر رہے تھے، وقت لگا رہے تھے، ایثار کر رہے تھے، انفاق کر رہے تھے، بھاگ دوڑ کر رہے تھے، اور اب کوئی آزمائش آئی ہے تو ٹھٹک کر کھڑے رہ گئے ہیں۔ جیسے سورۃ البقرۃ (آیت: 20) میں ارشاد ہے: کُلَّمَا اَضَآء لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَـامُوْا. ،،جب ذرا روشنی ہوتی ہے ان پر تو اس میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں ،،۔ اب کیفیت یہ ہے کہ نہ صرف کھڑے رہ گئے ہیں بلکہ کچھ پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔ ایسی کیفیت کے بارے میں فرمایا گیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمہارا محتاج ہے، بلکہ تم اللہ کے محتاج ہو۔ تمہیں اپنی نجات کے لیے اپنے اس فرض کو ادا کرنا ہے۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہٹائے گا اور کسی دوسری قوم کو لے آئے گا، کسی اور کے ہاتھ میں اپنے دین کا جھنڈا تھما دے گا۔
یہاں پر مؤمنین صادقین کے اوصاف کے ضمن میں جو تین جوڑے آئے ہیں ان پر ذرا دوبارہ غور کریں :
(1) یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہ: ،،اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ ،، (اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُم!)
(۲) اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ: ،،وہ اہل ِایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے، کافروں پر بہت سخت ہوں گے،،۔ یہی مضمون سورۃ الفتح (آیت: 29) میں دوسرے انداز سے آیا ہے: اَشِدِّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ: ،،آپس میں بہت رحیم و شفیق، کفار پر بہت سخت،،۔ بقولِ اقبال:
ہو حلقہ ٔ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن!
(۳) یُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافــُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ئِمٍ: ،،اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں کریں گے،،۔ ان کے رشتہ داراُن کو سمجھائیں گے، دوست احباب نصیحتیں کریں گے کہ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا؟ تم fanatic ہو گئے ہو؟ تمہیں اولاد کا خیال نہیں ، اپنے مستقبل کی فکر نہیں! مگر یہ لوگ کسی کی کوئی پروانہیں کریں گے، بس اپنی ہی دھن میں مگن ہوں گے۔ اور ان کی کیفیت یہ ہو گی :
واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریت ِجاں، راحت ِتن، صحت ِداماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ِہوس کی
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پس ِزنداں ، کبھی رسوا سر ِبازار
کڑکے ہیں بہت شیخ سر گوشہ ٔ منبر
گرجے ہیں بہت اہل ِحکم بر سر ِدربار
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عشق، نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت!
یہ ایک کردار ہے جس کو واضح کرنے کے لیے دو دو اوصاف کے یہ تین جوڑے آئے ہیں ۔ ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمیں اس کردار کو عملاً اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُــؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ: ،،یہ اللہ کا فضل ہے، جس کو چاہے عطا کرتا ہے، اور اللہ بہت وسعت رکھنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ ،،
اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ اگر تم اپنے بھائیوں ، عزیزوں ، دوستوں ، ساتھیوں اور رفیقوں کو دیکھتے ہو کہ ان پر اللہ کا بڑا فضل ہوا ہے، انہوں نے کیسے کیسے مرحلے َسر کر لیے ہیں ، کیسی کیسی بازیاں جیت لیں ہیں ، تو تم بھی اللہ سے اس کا فضل طلب کرو۔ اللہ تمہیں بھی ّہمت دے گا۔ اس لیے کہ اس دین کے کام میں اس قسم کا رشک بہت پسندیدہ ہے۔ جیسے حضرت عمر کو رشک آیا حضرت ابو بکر صدیق پر۔ جب غزوہ تبوک کے لیے رسول اللہ نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو آپ نے سوچا کہ آج تو میں ابو بکر سے بازی لے جاؤں گا، کیونکہ اتفاق سے اِس وقت میرے پاس خاصا مال ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پورے مال کے دو برابر حصے کیے، اور پورا ایک حصہ یعنی آدھا مال لا کر حضور کے قدموں میں ڈال دیا۔ لیکن حضرت ابو بکر صدیق کے گھر میں جو کچھ تھا وہ سب لے آئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے کہا میں نے جان لیا کہ ابو بکر سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ تو دین کے معاملے میں اللہ کا حکم ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ. (المائدۃ: 48) یعنی نیکیوں میں ، خیر میں ، بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہو!