قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 55
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
(مسلمانو !) تمہارے یارومددگار تو اﷲ، اس کے رسول اور وہ ایمان والے ہیں جو اس طرح نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ اداکرتے ہیں کہ وہ (دل سے) اﷲ کے آگے جھکے ہوئے ہوتے ہیں
اب پھر اہل ِایمان کو دوستانہ تعلقات کے معیار کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اہل ایمان کی دلی دوستی کفار سے، یہود ہنود اور نصاریٰ سے ممکن ہی نہیں ، اس لیے کہ یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر دین کی غیرت و حمیت ہو گی، اللہ اور اس کے رسول کی محبت دل میں ہو گی تو ان کے دشمنوں سے دلی دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔
آیت 55: اِنَّمَا وَلـِیُّـکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُـہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا: ،،تمہارے ولی تو اصل میں بس اللہ، اُس کا رسول اور اہل ِایمان ہیں ،،
تمہارے دوست، پشت پناہ، حمایتی، معتمد اور راز دار تو بس اللہ، اُس کا رسول اور اہل ایمان ہیں ۔ اور یہ اہلِ ایمان بھی پیدائشی اور قانونی مسلمان نہیں ، بلکہ: َ
الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوْنَ: ،،جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں جھک کر۔ ،،
یہاں وَہُمْ رٰکِعُوْنَ کا مطلب ،،وہ رکوع کرتے ہیں،، صحیح نہیں ہے۔ یہ درحقیقت زکوٰۃ دینے کی کیفیت ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں فروتنی کرتے ہوئے۔ ہم سورۃ البقرۃ (آیت: 273) میں پڑھ آئے ہیں کہ سب سے بڑھ کر انفاق فی سبیل اللہ کے مستحق کون لوگ ہیں: لِلْفُقَرَآء الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ…: جو اللہ کے دین کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروف ہیں اوران کے پاس اب اپنی معاشی جدوجہد ّکے لیے وقت نہیں ہے۔ لیکن وہ فقیر تو نہیں کہ آپ سے جھک کر مانگیں ، یہ تو آپ کو جھک کر، فروتنی کرتے ہوئے ان کی مدد کرنا ہو گی۔ آپ انہیں دیں اور وہ قبول کر لیں تو آپ کو ان کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے۔