قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 49
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ
اور (ہم حکم دیتے ہیں ) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اﷲ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اﷲ نے نازل کیا ہو۔ اس پر اگروہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اﷲ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں
آیت 49: وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ: ،،اور فیصلے کیجیے ان کے مابین اس (شریعت) کے مطابق جو کہ اللہ نے اُتاری ہے،،
وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءہُمْ: ،،اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے،،
آج ہمارا کیا حال ہے؟ ہم کن لوگوں کی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں؟ آج ہم احکامِ الٰہی کو پس پشت ڈال کر اپنے سیاسی پیشواؤں کی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں ۔ وہ جو چاہتے ہیں قانون بنا دیتے ہیں ، جو چاہتے ہیں فیصلہ کر دیتے ہیں اور پوری قوم اس کی پابند ہوتی ہے۔ ہم اس جال سے اسی صورت میں نکل سکتے ہیں کہ ایک زبردست جماعت بنائیں ، طاقت پیدا کریں ، ایک بھر پور تحریک اٹھائیں ، قربانیاں دیں ، جانیں لڑائیں تا کہ یہ موجودہ نظام تبدیل ہو، اللہ کا دین قائم ہو، اور پھر اس دین کے مطابق ہمارے فیصلے ہوں۔ یہاں حضور کو ایک بار پھر سے تاکید کی جا رہی ہے کہ آپ ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجیے اور اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے کیجیے۔
وَاحْذَرْہُمْ اَنْ یَّــفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَـآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَـیْکَ: ،،اور ان سے ہوشیار رہیے، ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ آپ کو ان میں سے کسی چیز سے بچلا دیں جو اللہ نے آپ پر نازل کی ہیں ۔ ،،
یعنی ہر طرف سے دباؤ آئے گا، لیکن آپ کو ثابت قدمی سے کھڑے رہنا ہے اُس شریعت پر جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمائی ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّــوْا: ،،پھر اگر وہ رو گردانی کریں ،،
فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْـبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ: ،،تو جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے بعض گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے۔ ،،
یہ دراصل لرزا دینے والا مقام ہے۔ اگر ہم اپنے اس ملک کے اندر اسلام کو قائم نہیں کرتے اور ہماری ساری کوششوں کے باوجود دین نافذ نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے عذاب کا کوئی کوڑا مقدر ّہو چکا ہے۔ واضح الفاظ میں فرمایا جارہا ہے کہ اگر وہ اللہ کے احکامات سے ُمنہ موڑیں ، شریعت کے فیصلوں کا انکار کریں تو جان لو کہ اللہ تعالی در حقیقت ان کے گناہوں کی پاداش میں ان پر عذاب نازل کرنا چاہتا ہے اور اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ. (البروج) کے مصداق انہیں کوئی سزا دینا چاہتا ہے۔
وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ: ،،اور اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ لوگوں میں سے اکثر فاسق (نا فرمان) ہیں ۔ ،،