قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 48
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ عَمَّا جَاءكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاء اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَآ آتَاكُم فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ إِلَى الله مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور (اے رسول محمد ! ﷺ) ہم نے تم پر بھی حق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی نگہبان ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اﷲ نے نازل کیا ہے، اور جو حق بات تمہارے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (امت) کیلئے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لئے دیں ) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ لہٰذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اُس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے
آیت 48: وَاَنْزَلْـنَـآ اِلَـیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ: ،،اور (اب اے نبی) ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی حق کے ساتھ،،
مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْـکِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہ: ،،جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر نگران ہے،،
یہ کتاب تورات اور انجیل کی مصداق بھی ہے اور مصدق بھی۔ اور اس کی حیثیت کسوٹی کی ہے۔ پہلی کتابوں کے اندر جو تحریفات ہو گئی تھیں اب ان کی تصحیح اس کے ذریعے سے ہو گی۔ ِ
فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَل اللّٰہُ: ،،تو (آپ بھی) فیصلہ کریں ان کے درمیان اس (قانون) کے مطابق جو اللہ نے نازل فرمایا ہے،،
وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءہُمْ عَمَّا جَآء کَ مِنَ الْحَقِّ: ،،اور مت پیروی کریں ان کی خواہشات کی، اس حق کو چھوڑکر جو آ چکا ہے آپ کے پاس۔ ،،
لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْـکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا: ،،تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل طے کر دی ہے۔ ،،
جہاں تک شریعت کا تعلق ہے سب کو معلوم ہے کہ شریعت ِموسوی شریعت محمدی سے مختلف تھی۔ مزید برآں رسولوں کے منہاج (طریق کار) میں بھی فرق تھا۔ مثلاً حضرت موسیٰ کے منہاج میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک مسلمان اُمت (بنی اسرائیل) کے لیے بھیجے گئے تھے۔ وہ اُمت جو کہ دبی ہوئی تھی، پسی ہوئی تھی، غلام تھی۔ اس میں اخلاقی خرابیاں بھی تھیں ، دینی اعتبار سے ضعف بھی تھا، وہ آلِ فرعون کے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنی ہوئی تھی۔ چنانچہ حضرت موسٰی کے مقصد ِ بعثت میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک بگڑی ہوئی مسلمان امت کو کافروں کے تسلط اور غلبے سے نجات دلائیں ۔ اس کا ایک خاص طریقہ کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں بتایا گیا۔ حضرت عیسیٰ بھی ایک مسلمان اُمت کے لیے مبعوث کیے گئے، یعنی یہودیوں ہی کی طرف۔ اس قوم میں نظریاتی فتور آ چکا تھا، ان کے معاشرے میں اخلاقی و روحانی گراوٹ انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اُن کے علماء کی توجہ بھی دین کے صرف ظاہری احکام اور قانونی پہلوؤں پر رہ گئی تھی اور وہ اصل مقاصد ِدین کو بھول چکے تھے۔ دین کی اصل رُوح نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ اس سارے بگاڑ کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص منہج، ایک خاص طریقہ کار عطا فرمایا۔ محمد رسول اللہ کو ان لوگوں میں مبعوث کیا گیا جو مشرک تھے، اَن پڑھ تھے، کسی نبی کے نام سے نا واقف تھے سوائے حضرت ابراہیم کے۔ ان کا احترام بھی وہ اپنے جد ِ امجد ّکے طور پر کرتے تھے، ایک نبی کے طور پر نہیں ۔ کوئی شریعت ان میں موجود نہیں تھی، کوئی کتاب ان کے پاس نہیں تھی۔ گویا ،،ضَلَّ ضَلَالاً بَعِیْدًا،، کی مجسّم تصویر! آپ نے اپنی دعوت و تبلیغ کے ذریعے ان میں سے صحابہ کرام کی ایک عظیم جماعت پیدا کی، انہیں «حزب اللہ» بنایا، اور پھر اس جماعت کو ساتھ لے کر آپ نے کفر، شرک اور ائمہ کفر کے خلاف جہاد و قتال کیا، اور بالآخر اللہ کے دین کو اس معاشرے میں قائم کر دیا۔ یہ منہاج ہے محمد رسول اللہ کا۔ تو یہ مفہوم ہے اس آیت کا «لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا» ،،ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک منہاج (طریقہ کار، منہج عمل) مقرر کیا ہے،،۔ اس لحاظ سے یہ آیت بہت اہم ہے۔
وَلَـوْ شَآء اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّـۃً وَّاحِدَۃً: ،،اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا،،
وَّلٰــکِنْ لِّـیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰٹکُمْ: ،،مگر اُس نے چاہا کہ وہ اس چیز میں تمہاری آزمائش کرے جو اُس نے تم کو عطا کی،،
یعنی اللہ کی حکمت اس کی متقاضی ہوئی کہ جس کو جو جو کچھ دیا گیا ہے اس کے حوالے سے اس کو آزمائے۔ چنانچہ اب ہمارے لیے اصل اُسوہ نہ تو حضرت موسیٰ ہیں اور نہ ہی حضرت عیسی، بلکہ لَـقَدْ کَانَ لَـکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ: (الاحزاب:۲۱) کے مصداق ِہمارے لیے اُسوہ ہے تو صرف محمد رٌسول اللہ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ حضرت عیسیٰ نے اگر شادی نہیں کی تو یہ ہمارے لیے اُسوہ نہیں ہے۔ ہمیں تو حضور کے فرمان کو پیش نظر رکھنا ہے، جنہوں نے فرمایا : «اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِی» اور پھر فرمایا: «فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی»۔ تو واقعہ یہ ہے کہ تمام انبیاء اللہ ہی کی طرف سے مبعوث تھے، اور ہر ایک کے لیے جو بھی طریقہ اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھا وہ ان کو عطا کیا، البتہ ہمارے لیے قابل ِتقلید منہاجِ نبوی ہے۔ اب ہم پر فرض ہے کہ اس منہج انقلابِ نبوی کا گہرا شعور حاصل کریں ، پھر اس راستے پر اُسی طرح چلیں جس طرح حضور چلے۔ جس طرح آپ نے دین کو قائم کیا، غالب کیا، ایک نظام برپا کیا، پھر اس نظام کے تحت اللہ کا قانون نافذ کیا، اُسی طرح ہم بھی اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کریں ۔
فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ: ،،تو تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ ،،
اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا: ،،اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹنا ہے،،
فَـیُـنَــبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ: ،،تو وہ تمہیں جتلا دے گا ان چیزوں کے بارے میں جن میں تم اختلاف کرتے رہے تھے۔ ،،