July 21, 2025

قرآن کریم > المائدة >surah 5 ayat 41

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُواْ آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هِادُواْ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُواْ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

اے پیغمبر ! جو لوگ کفر میں بڑی تیزی دکھا رہے ہیں ، وہ تمہیں غم میں مبتلا نہ کریں ، یعنی ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے زبان سے توکہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے (کھلے بندوں ) یہودیت کا دین اختیار کر لیا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں کان لگا لگاکر سننے والے ہیں ، (اور تمہاری باتیں ) ان لوگوں کی خاطر سنتے ہیں جو تمہارے پاس نہیں آئے، جو (اﷲ کی کتاب کے) الفاظ کا موقع محل طے ہوجانے کے بعد بھی ان میں تحریف کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیاجائے تو قبول کر لینا، اور اگر یہ حکم نہ دیا جائے تو بچ کر رہنا۔ اور جس شخص کو اﷲ فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کر لے تو اسے اﷲ سے بچانے کیلئے تمہارا کوئی زور ہر گز نہیں چل سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ (ان کی نافرمانی کی وجہ سے) اﷲ نے ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ ان کیلئے دنیا میں رسوائی ہے، اورانہی کیلئے آخرت میں زبردست عذاب ہے

            اب یہاں  پھر ذکر آ رہا ہے ان لوگوں  کا جو دوغلی پالیسی پر کاربند تھے،  لیکن سورۃ البقرۃ کی طرح یہاں  بھی روئے سخن قطعیت کے ساتھ واضح نہیں  کیا گیا۔  لہٰذا اس کا انطباق منافقین پر بھی ہو گا اور اہل ِکتاب پر بھی۔ منافق اہل کتاب میں  سے بھی تھے،  جن کا میلان اسلام کی طرف بھی تھا اور چاہتے بھی تھے کہ مسلمانوں  میں  شامل رہیں، لیکن وہ اپنے ساتھیوں  کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں  تھے۔  تو یہ لوگ جو ،،مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِک،، کی مثال تھے،  یہ دونوں  طرف کے لوگ تھے۔

آیت 41:  یٰٓـاَ یُّہَا الرَّسُوْلُ لاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ: ،،اے نبی  یہ لوگ آپ کے لیے باعث رنج نہ ہوں  جو کفر کی راہ میں  بہت بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ،،

             مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ:  ،،ان لوگوں  میں  سے جو اپنے منہ سے تو کہتے ہیں  کہ ہم ایمان رکھتے ہیں،  مگر ان کے دل ایمان نہیں  لائے ہیں۔،،

            آپؐ ان لوگوں  کی سرگرمیوں  اور بھاگ دوڑ سے غمگین اور رنجیدہ خاطر نہ ہوں ۔

             وَمِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا:  ،،اور اسی طرح کے لوگ یہودیوں  میں  سے بھی ہیں ۔ ،،

             سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ:  ،،یہ بڑے ہی غور سے سنتے ہیں  جھوٹ کو،،

             سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لَمْ یَاْتُوْکَ:  ،،اور یہ سنتے ہیں  کچھ اور لوگوں  کی خاطر جو آپ کے پاس نہیں آتے۔ ،،

            یعنی ایک تو یہ لوگ اپنے ،،شیاطین،، کی جھوٹی باتیں  بڑی توجہ سے سنتے ہیں،  جیسے سورۃ البقرۃ (آیت: 14)  میں  فرمایا: وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ  اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِؤُوْنَ.   پھر یہ لوگ ان کی طرف سے جاسوس بن کر مسلمانوں  کے ہاں آتے ہیں  کہ یہاں  سے سن کر ان کو رپورٹ دے سکیں  کہ آج محمد  نے یہ کہا،  آج آپ کی مجلس میں  فلاں  معاملہ ہوا۔  سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ:    کا ترجمہ دونوں  طرح سے ہو سکتا ہے: ،،دوسری قوم کے لوگوں  کی باتوں  کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں،، یا ،،سنتے ہیں  دوسری قوم کے لوگوں  کے لیے،، یعنی انہیں رپورٹ کرنے کے لیے ان کے جاسوس کی حیثیت سے۔  ان کے جو لیڈر اور شیاطین ہیں ،  وہ آپ کے پاس خود نہیں  آتے اور یہ جو بین بین کے لوگ ہیں  یہ آپ کے پاس آتے ہیں  اور ان کے ذریعے سے جاسوسی کا یہ سارا معاملہ چل رہا ہے۔

             یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہ:  ،،وہ کلام کو پھیر دیتے ہیں  اس کی جگہ سے اس کا موقع ومحل معیّن ہو جانے کے بعد۔ ،،

             یَـقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ:  ،،وہ کہتے ہیں  اگر تمہیں  یہی (فیصلہ)  مل جائے تو قبول کر لینا،،

             وَاِنْ لَّمْ تُــؤْتَــوْہُ فَاحْذَرُوْا:   ،،اور اگر یہ (فیصلہ)  نہ ملے تو کنی کترا جانا۔ ،، 

            اہل ِکتاب کے سرداروں  کو اگر کسی مقدمے کا فیصلہ مطلوب ہوتا تو اپنے لوگوں  کو رسول اللہ کے پاس بھیجتے اور پہلے سے انہیں  بتا دیتے کہ اگر فیصلہ اس طرح ہو تو تم قبول کر لینا،  ورنہ رد کر دینا۔  واضح رہے کہ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست اور پورے طور پر ایک ہمہ گیر اسلامی حکومت دراصل فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی اور یہ صورت ِحال اس سے پہلے کی تھی۔  ورنہ کسی ریاست میں  دوہرا عدالتی نظام نہیں  ہو سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ لوگ جب چاہتے اپنے فیصلوں  کے لیے حضور  کے پاس آ جاتے اور جب چاہتے کسی اور کے پاس چلے جاتے تھے۔  گویا بیک وقت دو متوازی نظام چل رہے تھے۔  اسی لیے تو وہ لوگ یہ کہنے کی جسارت کرتے تھے کہ یہ فیصلہ ہوا تو قبول کر لینا،  ورنہ نہیں ۔

             وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْـنَـتَہ فَـلَنْ تَمْلِکَ لَــہ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا:   ،،اورجس کواللہ ہی نے فتنے میں  ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو تو تم اس کے لیے اللہ کے مقابلے میں  کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ ،،

             اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ:   ،،یہ وہ لوگ ہیں  کہ جن کے دلوں  کو اللہ نے پاک کرنا چاہا ہی نہیں ۔ ،،

             لَـہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ:  ،،ان کے لیے دنیا میں  بھی رسوائی ہے،،

             وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ:  ،،اور آخرت میں  بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ ،،

UP
X
<>