قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 72
وَقَالَت طَّآئِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُواْ بِالَّذِيَ أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُواْ آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
اہلِ کتاب کے ایک گروہ نے (ایک دوسرے سے) کہا ہے کہ : ’’ جو کلام مسلمانوں پر نازل کیا گیا ہے، اس پر دن کے شروع میں تو ایمان لے آؤ، اور دن کے آخری حصے میں اس سے انکار کر دینا، شاید اس طرح مسلمان (بھی اپنے دین سے) پھر جائیں
آیت 72: وَقَالَتْ طَّـآئِفَۃٌ مِّنْ اَہْلِ الْـکِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْ اُنْــزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوْآ اٰخِرَہ: «اور اہل کتاب کے ایک گروہ نے کہا کہ ان اہل ایمان پر جو چیز نازل کی گئی ہے‘ اس پر ایمان لاؤ صبح کے وقت اور اس کا انکار کر دو دِن کے آخر میں»
لَـعَلَّـہُمْ یَرْجِعُوْنَ: «شاید (اس تدبیر سے) ان میں سے بھی کچھ پھر جائیں۔»
یہاں یہود کی ایک بہت بڑی سازش کا ذکر ہو رہا ہے جو ان کے ایک گروہ نے محمد رسول اللہ کی دعوت کو ناکام بنانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف تیار کی تھی۔ اس سازش کا پس منظر یہ تھا کہ دنیا کے سامنے یہ بات آ چکی تھی کہ جو کوئی ایک مرتبہ دائرئہ اسلام میں داخل ہوجاتا تھا وہ واپس نہیں آتا تھا‘ چاہے اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جائے‘ بھوکا پیاسا رکھا جائے‘ حتیٰ کہ جان سے مار دیا جائے۔ اس طرح اسلام کی ایک دھاک بیٹھ گئی تھی کہ اس کے اندر کوئی ایسی کشش‘ ایسی حقانیت اور ایسی مٹھاس ہے کہ آدمی ایک مرتبہ اسلام قبول کر لینے کے بعد بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہو جاتا ہے‘ لیکن اسلام سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسلام کی یہ جو ساکھ بن گئی تھی اس کو توڑنے کا طریقہ انہوں نے یہ سوچا کہ ایسا کرو صبح کے وقت اعلان کرو کہ ہم ایمان لے آئے۔ سارا دن محمد کی صحبت میں رہو اور شام کو کہہ دو ہم نے دیکھ لیا‘ یہاں کچھ نہیں ہے‘ یہ دُور کے ڈھول سہانے ہیں‘ ہم تو اپنے کفر میں واپس جا رہے ہیں‘ ہمیں یہاں سے کچھ نہیں ملا۔ اس سے مسلمانوں میں سے کچھ لوگ تو سمجھیں گے کہ انہوں نے سازش کی ہو گی‘ لیکن یقینا کچھ لوگ یہ بھی سمجھیں گے کہ بھئی بڑے متقی لوگ تھے‘ متلاشیانِ حق تھے‘ بڑے جذبے اور بڑی شان کے ساتھ انہوں نے کلمہ پڑھا تھا اور ایمان قبول کیا تھا‘ پھر سارا دن رسول اللہ کی محفل میں بیٹھے رہے ہیں‘ آخر انہوں نے کچھ نہ کچھ تو دیکھا ہی ہو گا جو واپس پلٹ گئے۔ اس انداز سے عام لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرنا بہت آسان کام ہے۔ چنانچہ انہوں نے منافقانہ شرارت کی یہ سازش تیار کی۔ اسلام میں قتل مرتد کی سزا کا تعلق اسی سے جڑتا ہے۔ اسلامی ریاست میں اس طرح کی سازشوں کا راستہ روکنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہے کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد پھر کفر میں جائے گا تو قتل کر دیا جائے گا‘ کیونکہ اسلامی ریاست ایک نظریاتی (ideological) ریاست ہے‘ ایمان اور اسلام ہی تو اس کی بنیادیں ہیں۔ چنانچہ اس کی بنیادوں کو کمزور کرنے اور اس کی جڑوں کو کھودنے والی جو چیز بھی ہو سکتی ہے اس کا سدباب پوری قوت سے کرنا چاہیے۔