July 26, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 73

وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِيْنَكُمْ قُلْ اِنَّ الْهُدٰى ھُدَى اللّٰهِ اَنْ يُّؤْتٰٓى اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِيْتُمْ اَوْ يُحَاۗجُّوْكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللّٰهِ ۚ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ ۭوَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ

مگر دل سے ان لوگوں کے سوا کسی کی نہ ماننا جو تمہارے دین کے متبع ہیں ۔ ‘‘ آپ ا ن سے کہہ دیجئے کہ ہدایت تو وہی ہدایت ہے جو اﷲ کی دی ہوئی ہو ۔ یہ ساری باتیں تم اس ضد میں کر رہے ہو کہ کسی کو اس جیسی چیز (یعنی نبوت اور آسمانی کتاب) کیوں مل گئی جیسی کبھی تمہیں دی گئی تھی یا یہ (مسلمان) تمہارے رب کے آگے تم پر غالب کیوں آگئے ! ‘‘ آپ کہہ دیجئے کہ فضیلت تمام تر اﷲ کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا ہے، ہر چیز کا علم رکھتا ہے

آیت 73:    وَلاَ تُـؤْمِنُـوْآ اِلاَّ لِمَنْ تَبِعَ دِیْـنَـکُمْ:  «اور دیکھو کسی کی بات نہ ماننا مگر اُسی کی جو تمہارے دین کی پیروی کرے۔»

            یعنی اس سازشی گروہ کو یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر ہم جا کر چند گھنٹے اللہ کے رسول  کے پاس گزاریں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے واقعی کسی کو انشراحِ صدر ہو جائے اور وہ دل سے ایمان لے آئے۔ لہٰذا وہ طے کر کے گئے کہ دیکھو‘ ان پر ایمان نہیں لانا ہے‘ صرف ایمان  کا اعلان کرنا ہے۔ قرآن مجید میں یہ شعوری نفاق کی مثال ہے۔ یعنی جو وقت انہوں نے اپنے ایمان کا اعلان کرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ گزارا اس میں وہ قانوناً تو مسلمان تھے‘ اگر اس دوران کوئی ان میں سے مر جاتا تو اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھی جاتی‘ لیکن خود انہیں معلوم تھا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ یہ شعوری نفاق ہے‘ جبکہ ایک غیر شعوری نفاق ہے کہ اندر ایمان ختم ہو چکا ہوتا ہے مگر انسان سمجھتا ہے کہ میں تو مؤمن ہوں‘ حالانکہ اس کا کردار اور عمل منافقانہ ہے اور اس کے اندر سے ایمان کی پونجی ختم ہو چکی ہے‘ جیسے دیمک کسی شہتیر کو چٹ کر چکی ہوتی ہے لیکن اس کے اوپر ایک پردہ (veneer) بہرحال برقرار رہتا ہے۔ شعوری نفاق اور غیر شعوری نفاق کے اس فرق کو سمجھ لینا چاہیے۔

             قُلْ اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ:  «(اے نبی ! ان سے)  کہہ دیجیے کہ اصل ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے»

            آگے یہود کے سازشی ٹولے کے قول کا تسلسل ہے کہ دیکھو ایمان مت لانا!

             اَنْ یُّــؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَـآ اُوْتِیْتُمْ:  «مبادا کسی کو وہ شے دے دی جائے جو تمہیں دی گئی تھی»

            یعنی یہ رسالت ونبوت اور مذہبی پیشوائی تو ہماری میراث تھی‘ ہم اگر ان پر ایمان لے آئیں گے تو وہ چیز ہم سے ان کو منتقل ہو جائے گی۔ لہٰذا ماننا تو ہرگز نہیں ہے‘ لیکن کسی طرح سے ان کی ہوا اکھیڑنے کے لیے ہمیں یہ کام کرنا ہے۔

             اَوْ یُحَآجُّـوْکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ:  «یا تمہارے خلاف حجت قائم کریں تمہارے پروردگار کے حضور۔»

             قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ: «کہہ دیجیے کہ فضل تو کل کا کل اللہ کے ہاتھ میں ہے»  

              یُـؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ:  «وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔»

            اُس نے دو ہزار برس تک تمہیں ایک منصب پر فائز رکھا‘ اب تم اس منصب کے نااہل ثابت ہو چکے ہو‘ لہٰذا تمہیں معزول کر دیا گیا ہے‘ اور اب ایک نئی اُمت (اُمت ِمحمد ) کو اس مقام پر فائز کر دیا گیا ہے۔

             وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ:  «اور اللہ بہت وسعت والا اور جاننے والا ہے۔» 

UP
X
<>