July 7, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 179

مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىَ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاء فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ 

اﷲ ایسا نہیں کرسکتا کہ مومنوں کو اُس حالت پر چھوڑے رکھے جس پر تم لوگ اس وقت ہو، جب تک وہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے ۔ اور (دوسری طرف) وہ ایسا بھی نہیں کر سکتا کہ تم کو (براہِ راست) غیب کی باتیں بتا دے ۔ ہاں ! وہ (جتنا بتانامناسب سمجھتا ہے اس کیلئے) اپنے پیغمبروں میں سے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے ۔ لہٰذا تم اﷲ اور اس کے رسولوں پرایمان رکھو ۔ اور اگر ایمان رکھو گے اور تقویٰ اختیار کروگے تو زبردست ثواب کے مستحق ہوگے

 آیت 179:  مَا کَانَ اللّٰہُ لِـیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَـآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ:  ’’اللہ وہ نہیں کہ چھوڑے رکھے مسلمانوں کو اس حالت میں جس پر تم ہو‘‘

             حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّـیِّبِ:  ’’یہاں تک کہ وہ خبیث کو طیب سے ممیز کر دے۔‘‘

            یہ آیت بھی فلسفۂ آزمائش کے ضمن میں بہت اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور صالح بندوں کو تکالیف میں کیوں ڈالتا ہے‘ حالانکہ وہ تو قادرِ مطلق ہے‘ آنِ واحد میں جو چاہے کر سکتا ہے ۔ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بات اللہ کی حکمت کے مطابق نہیں ہے کہ وہ تمہیں اسی حال میں چھوڑے رکھے جس پر تم ہو۔ابھی تمہارے اندر کمزور اور پختہ ایمان والے گڈمڈ ہیں‘ بلکہ ابھی تو منافق اور مؤمن بھی گڈمڈ ہیں۔ تو جب تک ان عناصر کو الگ الگ نہ کر دیا جائے اور تمہاری اجتماعیت سے یہ تمام ناپاک عناصر نکال نہ دیے جائیں اُس وقت تک تم آئندہ پیش آنے والے مشکل اور کٹھن حالات کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔ آگے تمہیں سلطنت روما سے ٹکرانا ہے‘ تمہیں سلطنت کسریٰ سے ٹکر لینی ہے۔ ابھی تو یہ اندرون ملک عرب تمہاری جنگیں ہو رہی ہیں۔ ان آزمائشوں کا مقصد یہ ہے کہ تمہاری اجتماعیت کی تطہیر ‘(purge)‘ہوتی رہے‘ یہاں تک کہ منافقین اور صادق الایمان لوگ بالکل نکھر کر علیحدہ ہو جائیں۔

             وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ:  ’’اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی طریقہ نہیں ہے کہ تمہیں غیب کی خبریں بتائے‘‘

              وَلٰــکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہ مَنْ یَّشَآءُ:  ’’لیکن (اس کام کے لیے) اللہ منتخب کر لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے۔‘‘

            وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کے حالات بھی بتاتا ہے۔ رسولوں کو غیب از خود معلوم نہیں ہو تا‘اللہ کے بتانے سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ان آزمائشوں میں کیا حکمتیں ہیں اور ان میں تمہارے لیے کیا خیر پنہاں ہے‘ ہر چیز ہر ایک کو نہیں بتائی جائے گی‘ البتہ یہ چیزیں ہم اپنے رسولوں کو بتا دیتے ہیں۔

             فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہ:  ’’پس ایمان پختہ رکھو اللہ پر اور اس کے رسولوں  پر۔‘‘

             وَاِنْ تُـؤْمِنُوْا وَتَـتَّقُوْا فَـلَـکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ:  ’’اور اگر تم (یہ دو شرطیں پوری کر دو گے ) ایمان میں ثابت قدم رہو گے اور تقویٰ پر کاربند رہو گے تو تمہارے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔‘‘ 

UP
X
<>