July 7, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 180

وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ 

اور جو لوگ اﷲ کے دیئے ہوئے (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کیلئے کوئی اچھی بات ہے ۔ اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے ۔ جس مال میں انہوں نے بخل سے کا م لیا ہوگا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا ۔ اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اﷲ ہی کیلئے ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اﷲ اس سے پوری طرح باخبر ہے

 آیت 180:   وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰـٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُـوَ خَیْرًا لَّــہُمْ:  ’’اور نہ خیال کریں وہ لوگ جو بخل کر رہے ہیں اُس مال میں جو اللہ نے انہیں دیا ہے اپنے فضل میں سے کہ یہ بخل ان کے حق میں بہتر ہے۔‘‘

            ظاہر بات ہے کہ جب جنگ اُحد کے لیے تیاری ہو رہی ہو گی تو حضور  نے مسلمانوں کو انفاقِ مال کی دعوت دی ہو گی تاکہ اسبابِ جنگ فراہم کیے جائیں۔ لیکن جن لوگوں نے دولت مند ہونے کے باوجود بخل کیا ان کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے بخل کر کے جو اپنا مال بچا لیا وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہوںنے کوئی اچھا کام کیا ہے۔ یہ مال اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا تھا‘ اس میں بخل سے کام لے کر انہوں نے اچھا نہیں کیا۔

             بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّـہُمْ:  ’’بلکہ یہ ان کے حق میں بہت برا ہے۔‘‘

             سَیُطَوَّقُــوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ:  ’’اسی مال کے طوق بنا کر ان کی گردنوں میں پہنائے جائیں گے جس میں انہوںنے بخل کیا تھا‘ قیامت کے دن۔‘‘

             وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ  السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ:  ’’اور آسمانوں اور زمین کی وراثت بالآخر اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘

            دنیا کا مال و اسباب آج تمہارے پاس ہے تو کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا اور بالآخر سب کچھ اللہ کے لیے رہ جائے گا۔ آسمانوں اور زمین کی میراث کا حقیقی وارث اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

             وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ:  ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔‘‘

            یہاں وہ چھ رکوع مکمل ہو گئے ہیں جو غزوہ اُحد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرے پر مشتمل تھے۔ اس سورہ مبارکہ کے آخری دو رکوع کی نوعیت ’’حاصل کلام‘‘ کی ہے۔ یہ گویا concluding رکوع ہیں۔

UP
X
<>