July 5, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 171

يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ 

وہ اﷲ کی نعمت اور فضل پر بھی خوشی مناتے ہیں اور اس بات پر بھی کہ اﷲ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا

  آیت 171:   یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ:  ’’وہ خوشیاں منا رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی نعمت کی وجہ سے اور اس کے فضل کی بنا پر‘‘

              وَّاَنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ:  ’’اوراس بات پر کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘

            اب آگے جو آیات آ رہی ہیں ان کے بارے میں تاریخ وسیرت کی کتابوں میں دو قسم کی روایات آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کفار کی فوج کے واپس چلے جانے کے بعد رسول اللہ  نے بعض ضروری امور نمٹائے اور شہداء کی تدفین کی۔ اس کے بعد آپ  کو اچانک خیال آیا کہ یہ کفار چلے توگئے ہیں‘ لیکن ہو سکتا ہے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوکہ اس وقت تو مسلمان اس حالت میں تھے کہ ہم انہیں ختم کر سکتے تھے‘ لہٰذا وہ کہیں دوبارہ پلٹ کر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ چنانچہ رسول اللہ  نے مسلمانوں کو قریش کے تعاقب کے لیے تیار ہو جانے کا حکم دیا‘ تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ ہم نے ہمت نہیں ہاردی۔ اس کے باوجود کہ اہل ایمان کے جسم زخموں سے چور چور تھے‘ اتنا بڑا صدمہ پہنچا تھا‘ وہ پھر تیار ہو گئے اور حضور  جان نثاروں کی ایک جماعت کے ساتھ کفار کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ادھر ابوسفیان کو واقعتا اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ مقام روحاء پر رک کر اپنی فوج کی ازسرنوتنظیم کر کے واپس پلٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر رہا تھا۔ ادھر سے آنے والے ایک تاجر سے اس نے کہا بھی تھا کہ جا کر مسلمانوں کو بتا دو کہ میں بہت بڑا لشکر لے کر دوبارہ آ رہا ہوں۔ لیکن جب ابوسفیان نے دیکھا کہ مسلمانوں کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور وہ ان کے تعاقب میں آ رہے ہیں تو ارادہ بدل لیا اور لشکرکو مکہ کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔

            اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ابوسفیان جاتے ہوئے یہ کہہ گیا تھا کہ اب اگلے سال بدر میں دوبارہ ملاقات ہو گی۔ یعنی ایک سال پہلے بدر میں جنگ ہوئی تھی‘ اب اُحد میں ہمارا مقابلہ ہو گیا۔ اب اگلے سال پھر ہمارے اور تمہارے درمیان تیسرا مقابلہ بدر میں ہوگا۔ چنانچہ اگلے سال رسول اللہ  صحابہ کرامjکو لے کر بدر تک گئے۔ یہ مہم ’’بدرِ صغریٰ‘‘ کہلاتی ہے۔ ادھر سے ابوسفیان پورے لائو لشکر کے ساتھ آ گیا اور اس مرتبہ بھی کچھ لوگوں کے ذریعہ سے اہل ایمان میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی کہ لوگو کیا کر رہے ہو ‘ قریش تو بہت بڑا لشکر لے کر آ رہے ہیں‘تم اس کا مقابلہ نہ کر پائو گے! تو اس کے جواب میں مسلمانوں نے صبر و توکل کا مظاہرہ کیا اور وہ کلمات کہے جو آگے آ رہے ہیں ۔ تو یہ آیات دونوں واقعات پر منطبق ہو سکتی ہیں۔

UP
X
<>