قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 165
أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
جب تمہیں ایک ایسی مصیبت پہنچی جس سے دُگنی تم (دشمن کو) پہنچا چکے تھے تو کیا تم ایسے موقع پر یہ کہتے ہو کہ ’’ یہ مصیبت کہاں سے آگئی ؟‘‘ کہہ دو کہ : ’’ یہ خود تمہاری طرف سے آئی ہے ۔ ‘‘ بیشک اﷲ ہر چیز پر قادر ہے
آیت 165: اَوَلَمَّـآ اَصَابَتْـکُمْ مُّصِیْـبَـۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا: ’’اور کیا جب تم پر ایک مصیبت آئی‘ جبکہ تم اس سے دگنی مصیبت اُن کو پہنچا چکے ہو تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آ گئی؟‘‘
یعنی یہ کیوں ہو گیا؟ اللہ نے پہلے مدد کی تھی‘ اب کیوں نہیں کی؟
قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ: ’’(اے نبی) کہہ دیجیے یہ تمہارے اپنے نفسوں (کی شرارت کی وجہ) سے ہوا ہے۔‘‘
غلطی تم نے کی تھی‘ امیر کے حکم کی خلاف ورزی تم نے کی تھی‘ جس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑا۔
اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْـرٌ: ’’یقینا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
گویا اسی مضمون کو یہاں دہرا کر لایا گیا ہے جو پیچھے آیت: 152 میں بیان ہو چکا ہے کہ اللہ تو وعدہ اپنا پورا کر چکا تھا اور تم دشمن پر غالب آ چکے تھے‘ مگر تمہاری اپنی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اللہ چاہتا تو تمہیں کوئی سزا نہ دیتا‘ بغیر سزا دیے معاف کر دیتا‘ لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ تمہیں سزا دی جائے۔ اس لیے کہ ابھی تو بڑے بڑے مراحل آنے ہیں۔ اگر اسی طرح تم نظم کو توڑتے رہے اور احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے تو پھر تمہاری حیثیت ایک جماعت کی تو نہیں ہو گی‘ پھر تو ایک انبوہ ہو گا‘ ’’ہجومِ مؤمنین‘‘ ہو گا‘ جبکہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ایک منظم جماعت‘ لشکر‘ فوج‘ حزب اللہ درکار ہے۔