June 30, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 161

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ 

اور کسی نبی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مالِ غنیمت میں خیانت کرے، اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن وہ چیز لے کر آئے گا جو اس نے خیانت کر کے لی ہوگی، پھر ہر شخص کو ا س کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا

 آیت 161:    وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّـغُلَّ:  ’’اور کسی نبی کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے۔‘‘

            غَلَّ یَغُلُّ غُلُوْلًا کے معنی ہیں خیانت کرنا اور مالِ غنیمت میں سے کسی چیز کا چوری کر لینا‘ جبکہ غَلَّ یَغِلُّ غِلاًّ کے معنی دل میں کینہ ہونا کے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضور  پر منافقوں نے الزام لگایا تھا کہ آپ نے مالِ غنیمت میں کوئی خیانت کی ہے (معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ!) یہ اس الزام کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کسی نبی کی شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کا ارتکاب کرے۔البتہ مولانا اصلاحی صاحب نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس لفظ کو صرف مالی خیانت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دراصل منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انہوں نے اُحد کی شکست کے بعد رسول اللہ  پر لگایا تھا کہ ہم نے تو اس شخص پر اعتماد کیا‘ اس کے ہاتھ پر بیعت کی‘ اپنے نیک و بد کا اس کو مالک بنایا‘ لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان و مال کواپنے ذاتی حوصلوں اور اُمنگوں کے لیے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ عرب پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہماری جانوں کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ یہ صریحاً قوم کی بدخواہی اور اس کے ساتھ غداری و بے وفائی ہے۔ قرآن نے ان کے اس الزام کی تردید فرمائی ہے کہ تمہارا یہ الزام بالکل جھوٹ ہے‘ کوئی نبی اپنی اُمت کے ساتھ کبھی بے وفائی اور بدعہدی نہیں کرتا ۔ نبی جو قدم بھی اٹھاتا ہے رضائے الٰہی کی طلب میں اور اس کے احکام کے تحت اٹھاتا ہے۔

             وَمَنْ یَّـغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ:  ’’اور جو کوئی خیانت کرے گا تو وہ اپنی خیانت کی ہوئی چیز سمیت حاضر ہو گا قیامت کے دن۔‘‘

            اللہ تعالیٰ کے قانونِ جزا و سزا سے ایک نبی سے بڑھ  کر کون باخبر ہو گا؟

             ثُمَّ تُـوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ:  ’’پھر ہر جان کو پورا پورا دے دیا جائے گا جو کچھ اُس نے کمایا ہو گا اور اُن پر کچھ ظلم نہ ہو گا۔‘‘

            نوٹ کیجیے لفظ ’’ تُـوَفّٰی‘‘ یہاں بھی پور اپورا دیے جانے کے معنی میں آیا ہے۔

UP
X
<>