June 29, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 144

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ

اور محمد (ﷺ) ایک رسول ہی تو ہیں ؛ ان سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں ۔ بھلا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا انہیں قتل کر دیا جائے تو کیا تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤگے ؟ اور جو کوئی اُلٹے پاؤں پھرے گا وہ اﷲ کو ہر گز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ اور جو شکر گذار بندے ہیں اﷲ ان کو ثواب دے گا

آیت 144:   وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ:  ’’محمد  اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں۔‘‘

            غزوہ اُحد کے دوران جب یہ افواہ اڑ گئی کہ محمد رسول اللہ  کا انتقال ہو گیا ہے تو بعض لوگ بہت دل گرفتہ ہوگئے کہ اب کس لیے جنگ کرنی ہے؟ حضرت عمر بھی اُن میں سے تھے۔ آپ  نے رسول اللہ  کی وفات کی خبر سن کر تلوار پھینک دی اور دل برداشتہ ہو کر بیٹھ گئے کہ اب ہم نے جنگ کر کے کیا لینا ہے! یہاں اس طرزِ عمل پر گرفت ہورہی ہے کہ تمہارا یہ رویہ غلط تھا۔ محمد  اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں‘ وہ معبود تو نہیں ہیں۔ تم ان کے لیے جہاد نہیں کر رہے‘ بلکہ اللہ کے لیے کر رہے ہو‘ اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اپنے جان و مال قربان کر رہے ہو۔ محمد  تو اللہ کے رسول ہیں۔

             قَدْ خَلَتْ مِنْ قَـبْلِہِ الرُّسُلُ:  ’’ان سے پہلے بھی بہت سے رسول‘ گزر چکے ہیں۔‘‘

             اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ:  ’’تو کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا قتل کر دیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جائو گے؟‘‘

            کیا اس صورت میں تم اُلٹے پاؤں راہِ حق سے پھر جاؤ گے؟ کیا یہی تمہارے دین اور ایمان کی حقیقت ہے؟

             وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا:   ’’اور جو کوئی بھی اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جائے گا وہ اللہ کا کچھ بھی نقصان نہ کرے گا۔‘‘

             وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ:  ’’ہاں اللہ بدلہ دے گا شکر کرنے والوں کو۔‘‘

            حضرت عمر چونکہ جذباتی انسان تھے لہٰذا رسول اللہ  کی وفات کی خبر سن کر حوصلہ چھوڑ گئے۔ آپ  کی تقریباً یہی کیفیت پھر حضور  کے انتقال پر ہو گئی تھی ۔ آپ  تلوار سونت کر بیٹھ گئے تھے کہ جو کہے گا کہ محمد   کا انتقال ہو گیا ہے میں اُس کا سر اُڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر ’’ثانی ٔاسلام و غار وبدر و قبر‘‘ اُس وقت مدینہ کے مضافات میں تھے۔ آپ  آتے ہی سیدھے اپنی بیٹی حضرت عائشہ  کے حجرے میں گئے۔ رسول اللہ  کے چہرہ مبارک پر چادر تھی‘ آپ  نے چادر ہٹائی اور جھک کر آنحضور  کی پیشانی کو بوسہ دیا اور رو دیے۔ پھر کہا: اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان! اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ یعنی اب دوبارہ آپ پر موت وارد نہیں ہوگی‘ اب تو آپ کو حیاتِ جاودانی حاصل ہوچکی ہے۔حضرت ابو بکر  باہر آئے اور لوگوں سے خطاب شروع کیا تو حضرت عمر  بیٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر  نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:  «مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ‘ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لاَ یَمُوْتُ»: ’’جو کوئی محمد  کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد  کا انتقال ہو چکا ہے‘ اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا اُسے معلوم ہو کہ اللہ تو زندہ ہے‘ جسے موت نہیں آئے گی‘‘۔ اس کے بعد آپ  نے یہ آیت تلاوت فرمائی:  وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ  اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ.  حضرت ابوبکر  کی زبانی یہ آیت سن کر لوگوں کو ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ آیت اُسی وقت نازل ہوئی ہو۔

UP
X
<>