June 30, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 140

اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُه وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ

اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے ۔ یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اﷲ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اﷲ ظالموں کو پسند نہیں کرتا

 آیت 140:   اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہ:  ’’اگر تمہیں اب چرکا لگا ہے تو تمہارے دشمن کو بھی ایسا ہی چرکا اس سے پہلے لگ چکا ہے۔‘‘

            اہل ایمان کو غزوہ اُحد میں اتنی بڑی چوٹ پہنچی تھی کہ ستر صحابہ ‘ شہید ہو گئے۔ ان میں حضرت حمزہ بھی تھے اور مصعب بن عمیر  بھی۔ انصار کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو۔ رسول اللہ  اور مسلمان جب مدینہ واپس آئے تو ہر گھر میں کہرام مچا ہوا تھا ۔ اُس وقت تک میت پر بین کرنے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی ۔ عورتیں مرثیے کہہ رہی تھیں‘ بین َکر رہی تھیں‘ ماتم  کر رہی تھیں۔ اس حالت میں خود آنحضور  کی زبانِ مبارک سے الفاظ نکل گئے: «لٰــکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِی لَــہ!»’’ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والیاں بھی نہیں ہیں!‘‘ کیونکہ مدینہ میں حضرت حمزہ  کی کوئی رشتہ دار خواتین نہیں تھیں۔ حمزہ  تو مہاجر تھے۔ انصار کے گھرانوں کی خواتین اپنے اپنے مقتولوں پر آنسو بہا رہی تھیں اور بین کر رہی تھیں۔ پھر انصار نے اپنے گھروں سے جا کر خواتین کو حضرت حمزہ  کی ہمشیرہ حضرت صفیہ کے گھر بھیجا کہ وہاں جا کر تعزیت کریں۔ بہرحال دکھ تو محمد رسول اللہ  کو بھی پہنچا ہے۔ آخر آپ کے سینے کے اندر ایک حسّاس دل تھا‘ پتھر کا کوئی ٹکڑا تو نہیں تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی دلجوئی کے لیے فرما رہا ہے کہ اتنے غمگین نہ ہو‘ اتنے ملول نہ ہو‘ اتنے دل گرفتہ نہ ہو۔ اس وقت اگر تمہیں کوئی چرکا لگا ہے تو تمہارے دشمن کو اس جیسا چرکا اس سے پہلے لگ چکا ہے۔ ایک سال پہلے ان کے بھی ستر افراد مارے گئے تھے۔   ّ

             وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ:  ’’یہ تو دن ہیں جن کو ہم لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ہیں۔‘‘

            یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ کسی قوم کو ہم ایک سی کیفیت میں نہیں رکھتے۔

             وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا:  ’’اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ لے کہ کون حقیقتاً مؤمن ہیں‘‘

            اگر امتحان اور آزمائش نہ آئے‘ تکلیف نہ آئے‘ قربانی نہ دینی پڑے‘ کوئی زک نہ پہنچے تو کیسے پتا چلے کہ حقیقی مؤمن کون ہے؟ امتحان وآزمائش سے تو پتا چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہا۔ اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے‘ دیکھنا چاہتا ہے‘ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کس نے اپنا سب کچھ لگا دیا؟ کس نے صبر کیا؟

             وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَ:  ’’اور وہ چاہتا ہے کہ تم میں سے کچھ کو مقامِ شہادت عطا کرے۔‘‘

            انہیں اپنی گواہی کے لیے قبول کر لے۔

             وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ:  ’’اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

            اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے کفار کی مدد کی ہے اور ان کو پسند کیا ہے (معاذاللہ!)

UP
X
<>