قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 32
نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ
یہ سب کچھ اُس ذات کی طرف سے پہلی پہلی میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے، جس کی رحمت بھی کامل۔‘‘
آیت ۳۲: نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ : ’’یہ ابتدائی مہمان نوازی ہو گی اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔‘‘
جنت کی جن نعمتوں کا ذکر ہمیں قرآن و حدیث میں ملتا ہے ان کا تعلق اہل جنت کی ابتدائی مہمان نوازی (نُزُل) سے ہے۔ جہاں تک ان کی اصل ضیافت کا تعلق ہے اس کی کیفیت ہمارے احاطہ شعور میں نہیں آ سکتی۔ حضرت ابوہریرہhروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ( (قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَا لاَ عَیْنٌ رَأَتْ، وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ …) ) ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے (جنت میں ) وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل پر اس کا گمان ہی گزرا…‘‘ پھر آپ نے سورۃ السجدۃ کی یہ آیت تلاوت فرمائی (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) ’’پس کوئی انسان نہیں جانتا کہ ان (اہل جنت) کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے، وہ بدلہ ہو گا ان کے اعمال کا۔‘‘
اب اس کے بعد وہ آیت آ رہی ہے جو اپنے مضمون کے اعتبار سے اس سورت کا عمود ہے اور جس کو قبل ازیں ان سات آیات کے ہار کے درمیان ایک جگمگاتے ہیرے سے تشبیہہ دی گئی تھی۔