June 8, 2025

قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 31

نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ

ہم دُنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جو تم منگوانا چاہو

آیت ۳۱:  نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ: ’’ہم ہیں تمہارے رفیق دُنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔‘‘

        ان الفاظ سے یہ مفہوم خود بخود واضح ہو رہا ہے کہ فرشتے حیاتِ دُنیوی کے دوران بھی ان خوش قسمت لوگوں کی ہمت بندھاتے ہیں اور انہیں یہ پیغامِ جانفرا پہنچاتے ہیں۔

         وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُم: ’’اور تمہارے لیے اس (جنت) میں وہ سب کچھ ہو گا جو تمہارے جی چاہیں گے‘‘

        تمہارے جی وہاں جو کچھ چاہیں گے وہ سب کچھ ہمارے علم میں ہے، کیونکہ تمہارے نفسوں کے تقاضوں اور تمہاری خواہشات کو بھی ہم نے خود ہی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ہم تمہاری خواہشات کی تسکین کا مکمل سامان وہاں فراہم کریں گے۔

         وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ : ’’اور تمہارے لیے اس میں وہ سب کچھ بھی ہو گا جو تم مانگو گے۔‘‘

        تمہارے نفسوں کے تقاضوں کے مطابق تو سب کچھ وہاں پہلے سے ہی مہیا ہو چکا ہو گا۔ البتہ مانگنے اور طلب کرنے کے حوالے سے ہر شخص کا اپنی ذہنی سطح کے مطابق ایک معیار اور مخصوص ذوق ہوتا ہے۔ بچہ اپنی پسند کی کوئی چیز مانگے گا، ایک سادہ لوح دیہاتی اپنے معیار کی کوئی چیز طلب کر ے گا، جبکہ ایک حکیم و فلسفی اپنے ذوق کے مطابق سوال کرے گا۔ غرض جو کوئی جو کچھ مانگے گا وہ سب کچھ ا س کے سامنے حاضر کر دیا جائے گا۔ 

UP
X
<>