قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 33
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور اُس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اﷲ کی طرف دعوت دے، اور نیک عمل کرے، اور یہ کہے کہ میں فرماں برداروں میں شامل ہوں
آیت ۳۳: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ: ’’اور اُس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف‘‘
جس خوش قسمت شخص کو ایمان کے بعد ’’استقامت‘‘ کا مقام حاصل ہو چکا ہو، اسے بھلا اب کس بات کی دھن ہو گی؟ کیاوہ اب بھی مال و دولت ِدنیا کے پیچھے دوڑے گا ؟ یا کیا حکومت اور اقتدار کے حصول کی خواہش اب بھی اس کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچے گی؟ نہیں ! ہر گز نہیں !اس ’’متاعِ غرور‘‘ کو تو وہ ٹھکرا کر بہت آگے نکل آیا ہے۔ مسند ِاستقامت پر رونق افروز ہونے کے بعد دنیا و مافیہا کے بارے میں اس کی ترجیحات بہت واضح ہوچکی ہیں۔ اب تووہ خوب سمجھتا ہے کہ یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں، آج ہیں تو کل نہیں ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ دنیا اور اس کے لوازمات کی بہتات سے مسؤلیت بڑھتی ہے اور حسابِ آخرت مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اب اس کے دل میں ایک ہی تڑپ ہے اوروہ ہے دعوت الی اللہ کی تڑپ۔ اب اس کی دوڑ دھوپ اور جدوجہد کا اگر کوئی ہدف ہے تو بس یہی کہ میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو راہِ ہدایت پر لے آؤں۔
وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ: ’’اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘
اعمالِ صالحہ کا مفہوم ’’استقامت‘‘ کے اندر بھی پوشیدہ ہے، لیکن یہاں پر اس کا علیحدہ ذکر بھی آ گیا ہے، اس لیے کہ دعوت الی اللہ اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایک داعی کا اپنا عمل درست نہیں ہو گا تو نہ صرف یہ کہ اس کی دعوت مؤثر نہیں رہے گی بلکہ وہ دعوت کی بدنامی کا باعث بھی بنے گا۔