June 8, 2025

قرآن کریم > فصّلت >sorah 41 ayat 30

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ

(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ : ’’ ہمارا رَبّ اﷲ ہے۔‘‘ اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو اُن پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اُتریں گے کہ : ’’ نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کاغم کرو، اور اُس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا

آیت ۳۰:  اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا: ’’بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘

        اللہ پر ایمان لانا آسان ہے مگر اس پر جمے رہنا آسان نہیں ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کو اللہ پر پوری طرح توکل ّہو، وہ ہر حالت میں اس کی رضا پر راضی رہے۔ نہ اپنی کسی حالت کے بارے میں اس کی زبان پر حرفِ شکایت آئے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے کسی فیصلے پر اس کے دل میں ملال پیدا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے اس کا سر تسلیم بلا حیل و حجت جھکتا چلا جائے اور وہ اپنے تن من دھن کو ہتھیلی پر رکھے، اس کے درِ اطاعت پر ہمہ وقت کمر بستہ کھڑے رہ کرعملی طور پر ثابت کر دے کہ (اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ) (الانعام) ’’یقینا میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ اس استقامت کی اہمیت ایک حدیث سے بہت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ حضرت سفیان بن عبداللہ  سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتا دیں کہ آپؐ کے سوا کسی اور سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے۔‘‘ (یعنی مجھے اسلام کی حقیقت ایک جملے میں بتا دیجیے تا کہ میں اسے گرہ میں باندھ لوں۔ ) جواب میں آپ نے فرمایا: ( (قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) ) ’’کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جاؤ!‘‘ اگر واقعی کوئی شخص غور کرے تو اس استقامت میں اسے قیامت مضمر دکھائی دے گی۔ (واضح رہے کہ استقامت اور قیامت کا سہ حرفی مادہ ایک ہی ہے۔ ) یہ قیامت ہی تو ہے کہ ایک بندہ اللہ تعالیٰ کو نظریاتی طور پر اپنا رب مان لینے کے بعد عملی طور پر ساری دنیا سے بے نیاز ہو جائے اور اپنے ایک ایک عمل سے ثابت کردے کہ میرا پروردگار، میرا حاجت روا، میرا سہارا، میرا مشکل کشا، میرے نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے۔ دل کا یہ یقین اور عمل کا یہ رنگ گویا چوٹی ہے اس ایمان اور عمل صالح کی جس کا ذکر سورۃ العصر میں نجاتِ اُخروی کی پہلی دو شرائط کے طور پر اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے الفاظ میں ہوا ہے۔

        اب اگلی آیت میں ان خوش قسمت لوگوں کا اللہ کے ہاں مقام ملاحظہ کیجیے جو اپنی دُنیوی زندگی میں ایمان و عمل کی اس چوٹی یعنی استقامت تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں :

         تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ: ’’ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ آپ لوگ ڈرو نہیں اور غمگین نہ ہو اور خوشیاں مناؤاس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔‘‘

        فرشتوں کا نزول ان لوگوں پر کب ہوتا ہے؟ اس حوالے سے یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ موت کے قریب ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہنے اور بشارت دینے کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں، لیکن دُنیوی زندگی کے دوران بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ جیسے میدانِ بدر میں اہل ِایمان مجاہدین کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوئے (اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) ( الانفال: ۱۲) ’’ (یاد کریں) جب آپؐ کا ربّ وحی کر رہا تھا فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تو تم (جاؤ اور) اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو‘‘۔ چنانچہ مؤمنین صادقین پر ملائکہ کا نزول اثنائے حیات میں بھی ہوتا ہے۔ 

UP
X
<>