August 18, 2025

قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 95

لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُلاًّ وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا

جن مسلمانوں کو کوئی معذوری لاحق نہ ہو اور وہ (جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں) بیٹھ رہیں وہ ا ﷲ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں ۔ جو لوگ اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں ان کو اﷲ نے بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے۔ اور اﷲ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اور اﷲ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بڑی فضیلت دے کر بڑا ثواب بخشا ہے

            اگلی آیت مبارکہ میں جہاد کا لفظ بمعنی قتال آیا ہے۔ جہاں تک جہاد کی اصلی روح کا تعلق ہے تو ایک مؤمن گویا ہر وقت جہاد میں مصروف ہے ۔ دعوت و تبلیغ بھی جہاد ہے‘ اپنے نفس کے خلاف اطاعت ِالٰہی بھی جہاد ہے۔ ازروئے حدیث ِنبوی: «اَلمُجَاہِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہ»  بلکہ رسول اللہ  سے پوچھا گیا:  اَیُّ الْجِہَادِ اَفْضَلُ؟ ’’سب سے افضل جہاد کون سا ہے ؟‘‘ تو آپ نے فرمایا: «اَنْ تُجَاہِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ»   ’’یہ کہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرو انہیں اللہ کا مطیع بنانے کے لیے‘‘۔ چنانچہ جہاد کی بہت سی منازل ہیں‘ جن میں سے آخری منزل قتال ہے۔ تاہم جہاد اور قتال کے الفاظ قرآن میں ایک دوسرے کی جگہ پر بھی استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن میں الفاظ کے تین ایسے جوڑے ہیں جن میں سے ہر لفظ اپنے جوڑے کے دوسرے لفظ کی جگہ اکثر استعمال ہوا ہے۔ ان میں سے ایک جوڑا تو یہی ہے‘ یعنی جہاد اور قتال کے الفاظ‘ جبکہ دوسرے دو جوڑے ہیں’’مؤمن و مسلم‘‘ اور’’نبی و رسول‘‘۔

آیت 95:  لَا یَسْتَوِی الْقٰـعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ:  ’’برابر نہیں ہیں اہل ِایمان میں سے بیٹھ رہنے والے بغیر عذر کے اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں جہاد (قتال )کے لیے نکلتے ہیں اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ۔‘‘

             فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً: ’’ اللہ نے فضیلت دی ہے اُن مجاہدین کو جو اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرنے والے ہیں‘ بیٹھے رہنے والوں پر‘ ایک بہت بڑے درجے کی ۔‘‘

            دَرَجَۃً کی تنکیر تفخیم کے لیے ہے‘  یعنی بہت بڑا درجہ۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ کے لیے نکلنے کی بات ہو رہی ہے کہ جو کسی معقول عذر کے بغیر قتال کے لیے نہیں نکلتا وہ اس کے برابر ہر گز نہیںہو سکتا جو قتال کر رہا ہے۔ اگر کوئی اندھا ہے‘ دیکھنے سے معذور ہے یا کوئی لنگڑا ہے‘ چل نہیں سکتا‘ ایسے معذور قسم کے لوگ اگر قتال کے لیے نہ نکلیں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن ایسے لوگ جن کو کوئی ایسا عذر نہیں ہے‘ پھر بھی وہ بیٹھے رہیں‘ یہاں انہی لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ درجے میں مجاہدین کے برابر ہرگز نہیں ہو سکتے ۔ اور یہ بھی نوٹ کر لیجئے کہ یہ ایسے قتال کی بات ہو رہی ہے جس کی حیثیت اختیاری (optional) ہو‘ لازمی قرار نہ دیا گیا ہو۔ جب اسلامی ریاست کی طرف سے قتال کے لیے نفیر ِعام ہو جائے تو معذورین کے سوا سب کے لیے نکلنا لازم ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ قتال کے لیے پہلی دفعہ نفیرعام غزوۂ تبوک (سن 9 ہجری) میں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے قتال کے بارے میں صرف ترغیب (persuasion) تھی کہ نکلو اللہ کی راہ میں‘ حکم نہیں تھا۔ لہٰذا کوئی جواب طلبی بھی نہیں تھی۔ کوئی چلا گیا‘ کوئی نہیں گیا‘ کوئی گرفت نہیں تھی۔ لیکن غزوہ تبوک کے لیے نفیر عام ہوئی تھی‘ باقاعدہ ایک حکم تھا‘ لہٰذا جو لوگ نہیں نکلے اُن سے وضاحت طلب کی گئی‘ اُن کا مؤاخذہ کیا گیا اور اُن کو سزائیں بھی دی گئیں۔ تو یہاں چونکہ  اختیاری قتال کی بات ہو رہی ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا رہا کہ ان کو پکڑو اور سزا دو‘بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے مجاہدین اللہ کی نظر میں بہت افضل ہیں۔ اس سے پہلے ایسے قتال کے لیے اسی سورۃ (آیت: 84) میں «وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ» کا حکم ہے‘ یعنی مومنین کو قتال پر اُکسائیے‘ ترغیب دیجئے‘ آمادہ کیجئے۔ لیکن یہاں واضح انداز میں بتایا جا رہا ہے کہ قتال کرنے والے اور نہ کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔

              وَکُلاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی: ’’(اگرچہ) سب کے لیے اللہ کی طرف سے اچھا وعدہ ہے۔‘‘

            چونکہ ابھی قتال فرض نہیں تھا‘ نفیر عام نہیں تھی‘ سب کا نکلنا لازم نہیں کیا گیا تھا‘ اس لیے فرمایا گیا کہ تمام مؤمنین کو ان کے اعمال کے مطابق اچھا اجر دیا جائے گا۔ قتال کے لیے نہ نکلنے والوں نے اگر اتنی ہمت نہیں کی اور وہ کمتر مقام پر قانع ہو گئے ہیں تو ٹھیک ہے‘ اللہ تعالیٰ  کی طرف سے اس سلسلے میں ان پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔

             وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا: ’’لیکن فضیلت دی ہے اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر ایک اجر عظیم کی (صورت میں)۔‘‘

UP
X
<>