قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 94
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُواْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو ! جب تم اﷲ کے راستے میں سفر کرو تو تحقیق سے کام لیا کر و، اورجو شخص تم کو سلام کرے تو دُنیوی زندگی کا سامان حاصل کرنے کی خواہش میں ا س کو یہ نہ کہو کہ ’’ تم مومن نہیں ہو ‘‘ کیونکہ اﷲ کے پاس مالِ غنیمت کے بڑے ذخیرے ہیں ۔ تم بھی پہلے ایسے ہی تھے۔ پھر اﷲ نے تم پر فضل کیا۔ لہٰذا تحقیق سے کا م لو۔ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سب سے پوری طرح باخبر ہے
اب اگلی آیت کو سمجھنے کے لیے عر ب کے ان مخصوص حالات کو نظر میں رکھیںجن میں مسلمان اور غیر مسلم ایک دوسرے کے ساتھ رہتے تھے‘مختلف علاقوں میں کچھ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے اور کچھ ابھی کفر پر قائم تھے اور کوئی ٔذریعہ تمیز بھی ان میں نہیں تھا‘ جگہ جگہ معرکے بھی ہو رہے تھے۔ اب فرض کریں کسی علاقے میں لڑائی ہو رہی ہے۔ مسلمان مجاہد سمجھا کہ سامنے سے کافر آ رہا ہے‘ مگر جب وہ اسے قتل کرنے کے لیے بڑھا تو اس نے آگے سے کلمہ پڑھ کر دعویٰ کیا کہ وہ مسلمان ہے۔ اس صورت ِحال میں ممکن ہے سمجھا جائے کہ اس نے جان بچانے کے لیے بہانہ کیا ہے۔ اس بارے میں حکم دیا جا رہا ہے:
آیت 94: یٰٓـاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَـبَـیَّنُوْا:’’ اے اہل ایمان‘ جب تم اللہ کی راہ میں نکلوتو تحقیق کر لیا کرو‘‘ ِ
وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَـیْـکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا: ’’اور جو شخص بھی تمہارے سامنے سلام پیش کرے(یا اسلام پیش کرے) اس کو یہ مت کہو کہ تم مؤمن نہیں ہو۔‘‘
تم اس کی باطنی کیفیت معلوم نہیں کر سکتے۔ ایمان کا تعلق چونکہ دل سے ہے اور دل کا حال سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جان سکتا‘ لہٰذا دنیا میں تمام معاملات کا اعتبار زبانی اسلام (اقرارٌ باللّسان) پر ہی ہو گا۔ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ رہا ہے اوراپنے اسلام کا اظہار کر رہا ہے تو آپ کو اس کے الفاظ کا اعتبار کرنا ہو گا۔ اس آیت کے پس منظر کے طور پر روایات میں ایک واقعے کا ذکر ملتا ہے جو حضرت اسامہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ کسی سریہ ّمیں حضرت اسامہ کا ایک کافر سے دُو بدو ُمقابلہ ہوا۔ جب وہ کافر بالکل زیر ہو گیا اور اس کو یقین ہو گیا کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو اس نے کلمہ پڑھ دیا: اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ اب ایسی صورتِ حال میں جو کوئی بھی ہوتا یہی سمجھتا کہ اس نے جان بچانے کے لیے بہانہ کیا ہے۔ حضرت اسامہ نے بھی یہی سمجھتے ہوئے اُس پر نیزے کا وار کیا اور اسے قتل کر دیا۔ لیکن دل میں ایک خلش رہی۔ بعد میں انہوں نے رسول اللہ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: «اَقَالَ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَقَتَلْتَہ؟» ’’اُس نے لا الٰہ الاّ اللہ کہہ دیا اور تم نے پھر بھی اُسے قتل کر دیا؟‘‘ حضرت اسامہ نے جواب دیا: ’’یا رسول اللہ! اُس نے تو ہتھیار کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا‘‘۔ آپ نے فرمایا: «اَفَـلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہ حَتّٰی تَعْلَمَ اَقَالَـھَا اَمْ لَا؟» تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ جان لیا کہ اُس نے کلمہ دل سے پڑھا تھا یا نہیں؟‘‘ حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ نے یہ بات مجھ سے بار بار فرمائی‘ یہاں تک کہ میں خواہش کرنے لگا کہ کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا! بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے اسامہ‘ اُس دن کیا جواب دو گے جب وہ کلمہ ٔشہادت تمہارے خلاف مدعی ہو کر آئے گا؟ ّ
تَـبْـتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا: ’’ تم دنیا کا سامان چاہتے ہو‘‘
کہ ایسے شخص کو کافر قرار دیں‘ قتل کریںاورمالِ غنیمت لے لیں۔
فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ: ’’تواللہ کے ہاں بڑی غنیمتیں ہیں۔‘‘
تمہارے لیے بڑی بڑی مملکتوں کے اموالِ غنیمت آنے والے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے حدود اللہ سے تجاوز نہ کرو۔
کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ: ’’تم خود بھی تو پہلے ایسے ہی تھے‘ تو اللہ نے تم پر احسان فرمایاہے‘‘
ٔآخر ایک دَور تم پر بھی تو ایسا ہی گزرا ہے ۔ تم سب بھی تو نو مسلم ہی ہو اور ایک وقت میں تم میں سے ہر شخص کافر یا مشرک ہی تو تھا! پھر اللہ ہی نے تم لوگوں پر احسان فرمایا کہ تمہیں کلمہ شہادت عطا کیا اور رسول کی دعوت و تبلیغ سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ لہٰذا اللہ کا احسان مانو اور اس طریقے سے لوگوں کے معاملے میں اتنی سخت روش اختیار نہ کرو۔
فَـتَـبَـیَّنُوْا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا: ’’ تو( دیکھو) تحقیق کر لیا کرو۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔‘‘