قرآن کریم > النساء >surah 4 ayat 104
وَلاَ تَهِنُواْ فِي ابْتِغَاء الْقَوْمِ إِن تَكُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لاَ يَرْجُونَ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور تم ان لوگوں (یعنی کافر دشمن) کا پیچھا کرنے میں کمزوری نہ دِکھاؤ، اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کو بھی اسی طرح تکلیف پہنچی ہے جیسے تمہیں پہنچی ہے، اور تم اﷲ سے اُس بات کے امیدوار ہو جس کے وہ اُمیدوار نہیں ۔ اور اﷲ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک
آیت 104: وَلاَ تَہِنُوْا فِی ابْتِغَـآء الْقَوْمِ: ’’اور اس دشمن گروہ کا پیچھا کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ۔‘‘
حق و باطل کی جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس آخری مرحلے میں آکر تھک نہ جانا اور دشمن کا پیچھا کرنے میں سست مت پڑ جانا‘ ہمت نہ ہار دینا۔
اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَـمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ: ’’اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تمہاری طرح انہیں بھی تو تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘
یہ بڑا پیارا انداز ہے کہ اس کشمکش میں اگر تم لوگ نقصان اٹھا رہے ہو تو کیا ہوا؟ تمہار ے دشمن بھی تو ویسے ہی نقصان سے دو چار ہو رہے ہیں‘ انہیں بھی تو تکالیف پہنچ رہی ہیں‘ وہ بھی تو زخم پر زخم کھا رہے ہیں‘ ان کے لوگ بھی تو مر رہے ہیں۔
وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لاَ یَرْجُوْنَ: ’’اور تم اللہ سے ایسی اُمیدیں رکھتے ہو جیسی امیدیں وہ نہیں رکھتے۔‘‘
تمہیں تو جنت کی اُمید ہے‘ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی اُمید ہے‘ جبکہ انہیں ایسی کوئی اُمید نہیں ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے تمہیں تو ان سے کہیں بڑھ کر ُپر جوش ہونا چاہیے۔ سورہ آل عمران کی آخری آیت میں بھی اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے: یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا. ’’اے ایمان والو‘ صبر سے کام لو اور صبر میں اپنے دشمنوں سے بڑھ جاؤ اور مربوط رہو‘‘۔ تو آپ لوگوں کو تو صبرو استقامت میں ان سے بہت آگے ہونا چاہیے‘ کیونکہ تمہارا سہارا تو اللہ ہے: وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ. (النحل: 127) ’’آپ صبر کیجیے‘ اور آپ کا صبر تو بس اللہ ہی کی توفیق سے ہے‘‘۔ تمہارے دشمنوں کے تو من گھڑت قسم کے خدا ہیں۔ اُن کے دیوتاؤں اور دیویوں کی خود ان کے دلوں میں کوئی حقیقی قدرو قیمت نہیں ہے‘ پھر بھی وہ اپنے باطل معبودوں کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں تو اے مسلمانو! تمہیں تو ان سے کئی گنا زیادہ قربانیوں کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔
وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا: ’’اور یقینا اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔‘‘
یہ چند آیتیں تو تھیں اہل ایمان سے خطاب میں۔ اس کے بعد اگلے رکوع میں پھر منافقین کا ذکرآ رہا ہے۔