قرآن کریم > فاطر >sorah 35 ayat 5
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
اے لوگو ! یقین جانو کہ اﷲ کا وعدہ سچا ہے، لہٰذا تمہیں یہ دُنیوی زندگی ہر گز دھوکے میں نہ ڈالے، اور نہ اﷲ کے معاملے میں تمہیں وہ (شیطان) دھوکے میں ڈالنے پائے جو بڑا دھوکے باز ہے
آیت ۵ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا: ’’اے لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے، تو دیکھو دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے‘‘
وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ: ’’اور نہ ہی تمہیں دھوکے میں ڈالے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز۔‘‘
اس سے پہلے ہم یہی الفاظ سورۂ لقمان کی آیت: ۳۳ میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ لفظ ’’غرور‘‘ اگر ’’غ‘‘ کی پیش کے ساتھ ہو تو مصدر ہے، اور اگر’’غ‘‘ کی زبر کے ساتھ (فَعول کے وزن پر) ہو تو یہ مبالغے کا صیغہ ہو گا۔ چنانچہ ’’الـغَرُور‘‘ کے معنی ہیں بہت بڑا دھوکے باز، یعنی ابلیس لعین جو اکثر لوگوں کو اللہ کے بارے میں اس طرح بھی ورغلاتا ہے کہ اللہ بڑا رحیم، کریم، شفیق اور مغفرت کرنے والا ہے۔ تمہیں کاہے کی فکر ہے؟ تم نے کون سے ایسے بڑے گناہ کیے ہیں۔ اور یہ سودی کاروبار! اس کا کیا ہے؟ یہ تو سب کرتے ہیں۔ اور وہ فلاں غلط کام اگر تم سے ہو گیا ہے تو کیا ہوا؟ اللہ غفورٌ رحیم ہے، وہ تو بڑے بڑے گناہگاروں کو بخش دیتا ہے، چنانچہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، تم جو کچھ کر رہے ہو کرتے جاؤ اور جس راستے پر چل رہے ہو چلتے جاؤ!
اللہ کی شانِ کریمی اورصفت ِغفاری کے نام پر انسان کو دھوکے میں ڈالنے کا یہ ایک ابلیسی حربہ ہے جس سے یہاں خبردار کیا گیاہے کہ دیکھو!یہ ابلیس بہت بڑا دھوکے باز ہے، یہ کہیں تمہیں اللہ کی رحمت کے حوالے سے ہی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بہلاوے میں آ کر تم دنیوی زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو کر اللہ کو بھول جاؤ اور اس طرح تمہاری یہ زندگی تمہارے لیے ایک بہت بڑا دھوکہ بن جائے۔ اور دیکھو! دُنیوی زندگی کے بارے میں یہ حقیقت کبھی تمہاری نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے: (وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ) (آل عمران) ’’اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘