July 21, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 64

 قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْهَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ 

(مسلمانو! یہود ونصاریٰ سے) کہہ دو کہ : ’’ اے اہلِ کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، (اور وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اﷲ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں ۔ ‘‘ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : ’’گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں ۔‘‘

آیت 64:    قُلْ یٰٓــاَہْلَ الْکِتٰبِ تَـعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ:  «(اے نبی ) کہہ دیجیے: اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہے»

            یہاں «اہل کتاب» کے صیغۂ خطاب میں یہود و نصاریٰ دونوں کو جمع کر لیا گیا ‘جبکہ سورۃ البقرۃ میں «یٰــبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ» کے صیغۂ خطاب میں زیادہ تر گفتگو یہود سے تھی۔ یہاں ابھی تک حضرت عیسیٰ کا تذکرہ تھا اور گویا صرف نصرانیوں سے خطاب تھا‘ اب اہل کتاب دونوں کے دونوں مخاطب ہیں کہ ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے مابین یکساں مشترک اور متفق علیہ ہے۔ وہ کیا ہے؟

             اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ:  «کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں»

             وَلاَ نُشْرِکَ بِہ شَیْئًا:  «اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں»

             وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ:  «اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ ٹھہرائے۔»

            یہود و نصاریٰ نے اپنے اَحبار و رُہبان کا یہ اختیار تسلیم کر لیا تھا کہ وہ جس چیز کو چاہیں حلال قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام ٹھہرا دیں۔ یہ گویا ان کو ربّ مان لینے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ سورۃ التوبۃ میں فرمایا گیا: اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْـبَانَـھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ: (آیت: ۳۱) ۔ مشہور سخی حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم (جو پہلے عیسائی تھے) ایک مرتبہ رسول اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قرآن کہتا ہے: «انہوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا»۔ حالانکہ ہم نے تو انہیں ربّ کا درجہ نہیں دیا۔ اس پر رسول اللہ  نے فرمایا:

((أَمَا اِنَّـھُمْ لَـمْ یَـکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَـھُمْ وَلٰــکِنَّـھُمْ اِذَا اَحَلُّوْا لَـھُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَـرَّمُوْا عَلَیْھِمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ) )

«وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے‘ لیکن جب وہ ان کے لیے کسی شے کو حلال قرار دیتے تو وہ اسے حلال مان لیتے اور جب وہ کسی شے کو حرام قرار دے دیتے تو وہ اسے حرام مان لیتے۔»

چنانچہ حلت و حرمت کا اختیار صرف اللہ کا ہے ‘ اور جو کوئی اس حق کو اختیار کرتا ہے وہ گویا ربّ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اب یہ ساری قانون سازی جو شریعت کے خلاف کی جا رہی ہے یہ حقیقت کے اعتبار سے ان لوگوں کی جانب سے خدائی کا دعویٰ ہے جوان قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ‘ اور جو وہاں پہنچنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں اور اس کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر تو پہلے سے یہ طے ہو جائے کہ کوئی قانون سازی کتاب و سنت کے منافی نہیں ہو سکتی تو پھر آپ جایئے اور وہاں جا کر قرآن و سنت کے دائرے کے اندر اندر قانون سازی کیجیے۔ لیکن اگر یہ تحدید نہیں ہے اور محض اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی ہو رہی ہے تو یہ شرک ہے۔

            اہل کتاب سے کہا گیا کہ توحید ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک عقیدہ ہے۔ اس طرح انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی کہ وہ موازنہ کریں کہ اس قدرِ مشترک کے معیار پر اسلام پورا اترتا ہے یا یہودیت اور نصرانیت؟

             فَاِنْ تَوَلَّــوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنـَّــا مُسْلِمُوْنَ:  «پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو (اے مسلمانو!)  تم کہو آپ لوگ گواہ رہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں۔»

            ہم نے تو اللہ کی اطاعت قبول کر لی ہے اور ہم متذکرہ بالا تینوں باتوں پر قائم رہیں گے۔ آپ کو اگر یہ پسند نہیں تو آپ کی مرضی! 

UP
X
<>