قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
تمہارے پاس (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ : ’’ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو، پھر ہم سب مل کر اﷲ کے سامنے گڑ گڑائیں، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اﷲ کی لعنت بھیجیں ۔‘‘
آیت 61: فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الْعِلْمِ: «تو (اے نبی ) جو بھی اس معاملے میں آپ سے حجت بازی کرے اس کے بعد کہ آپ کے پاس صحیح علم آچکا ہے»
آپ کے پاس تو «العلم» آ چکا ہے‘ آپ جو بات کہہ رہے ہیں علیٰ وجہ البصیرت کہہ رہے ہیں۔ اس ساری وضاحت کے بعد بھی اگر نصاریٰ آپ سے حجت بازی کر رہے اور بحث ومناظرہ سے کنارہ کش ہونے کو تیار نہیں ہیں تو ان کو آخری چیلنج دے دیجیے کہ یہ آپ کے ساتھ «مباہلہ» کر لیں۔ نجران سے نصاریٰ کا جو ۷۰ افراد پر مشتمل وفد ابو حارثہ اور ابن علقمہ جیسے بڑے بڑے پادریوں کی سرکردگی میں مدینہ آیا تھا‘ اس سے دعوت وتبلیغ اور تذکیر وتفہیم کا معاملہ کئی دن تک چلتا رہا اور پھر آخر میں رسول اللہ سے کہا گیا کہ اگر یہ اس قدر سمجھانے پر بھی قائل نہیں ہوتے تو انہیں مباہلے کی دعوت دے دیجیے۔
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْـنَـآءَنَا وَاَبْـنَـآءَکُمْ: «پس آپ ان سے کہہ دیجیے کہ آؤ‘ ہم بلاتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور تم بلاؤ اپنے بیٹوں کو»
وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَکُمْ: «اورہم (بلا لیتے ہیں) اپنی عورتوں کو اور تم (بلاؤ) اپنی عورتوں کو»
وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ: «اور ہم بھی آ جاتے ہیں اور تم بھی آ جاؤ!»
ثُمَّ نَـبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّـعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ: «پھر ہم سب مل کر دعا کریں اور لعنت کریں اللہ کی ان پر کہ جو جھوٹے ہیں۔»
ہم سب جمع ہو کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا کریں اور کہیں کہ اے اللہ! جو ہم میں سے جھوٹا ہو‘ اس پر لعنت کر دے۔ یہ مباہلہ ہے ۔اور یہ مباہلہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ احقاقِ حق ہو چکے‘ بات پوری واضح کر دی جائے۔ آپ کو یقین ہو کہ میرا مخاطب بات پوری طرح سمجھ گیا ہے‘ صرف ضد پر اڑا ہوا ہے۔ اس وقت پھر یہ مباہلہ آخری شے ہوتی ہے تاکہ حق کا حق ہونا ظاہر ہوجائے۔ اگر تو مخالف کو اپنے مؤقف کی صداقت کا یقین ہے تو وہ مباہلہ کا چیلنج قبول کر لے گا‘ اور اگر اس کے دل میں چور ہے اور وہ جانتا ہے کہ حق بات تو یہی ہے جو واضح ہو چکی ہے تو پھر وہ مباہلہ سے راہِ فرار اختیار کرے گا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ مباہلہ کی دعوت سن کر وفد نجران نے مہلت مانگی کہ ہم مشورہ کر کے جواب دیں گے۔ مجلس مشاورت میں ان کے بڑوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کہا: «اے گروہ نصاریٰ! تم یقینا دلوں میں سمجھ چکے ہو کہ محمد نبی مرسل ہیں اور حضرت مسیح کے متعلق انہوں نے صاف صاف فیصلہ کن باتیں کہی ہیں۔ تم کو معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں نبی بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ بعید نہیں یہ وہی نبی ہوں۔ پس ایک نبی سے مباہلہ و ملاعنہ کرنے کا نتیجہ کسی قوم کے حق میں یہی نکل سکتا ہے کہ ان کا کوئی چھوٹا بڑا ہلاکت یا عذابِ الٰہی سے نہ بچے اور پیغمبر کی لعنت کا اثر نسلوں تک پہنچ کر رہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے صلح کر کے اپنی بستیوں کی طرف روانہ ہو جائیں‘ کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینے کی طاقت ہم میں نہیں۔ چنانچہ انہوں نے مقابلہ چھوڑ کر سالانہ جزیہ دینا قبول کیا اور صلح کر کے واپس چلے گئے۔