May 25, 2025

قرآن کریم > آل عمران >surah 3 ayat 190

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ

بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں اُن عقل والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں

سورہ آل عمران کا آخری رکوع قرآن مجید کے عظیم ترین مقامات میں سے ہے۔ اس کی پہلی چھ آیات کے بارے میں روایت آتی ہے کہ جس شب میں یہ نازل ہوئیں تو پوری رات حضور  پر رقت طاری رہی اورآپ  کھڑے‘ بیٹھے‘ لیٹے ہوئے روتے رہے۔ نماز تہجد کے دوران بھی آپ پر رقت طاری رہی۔ پھر آپ نے بہت طویل سجدہ کیا‘ اس میں بھی گریہ طاری رہا اور سجدہ گاہ آنسوئوں سے تر ہو گئی۔ پھر آپ کچھ دیر لیٹے رہے لیکن وہ کیفیت برقرار رہی۔ یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی ۔ حضرت بلال  جب فجر کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے اور آپ کو اس کیفیت میںدیکھا تو وجہ دریافت کی۔ آپ  نے فرمایا:’’اے بلال‘ میں کیوںنہ روئوں کہ آج کی شب میرے ربّ نے مجھ پر یہ آیات نازل فرمائی ہیں‘‘۔ پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی (اس روایت کو امام رازی نے تفسیر کبیر میں بیان کیا ہے) یعنی وہ گریہ اور رقت شکر کے جذبے کے تحت تھی۔

            یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہ سورہ آل عمران کا بیسواں رکوع شروع ہو رہا ہے اور سورۃ البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت کے الفاظ یہ تھے:  اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّــآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص  وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.  اسی ’’آیت ُالآیات‘‘ کا خلاصہ یہاں آ گیا ہے:

 آیت 190:  اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ:  ’’یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں‘‘

             لَاٰیٰتٍ لّاُولِی الْاَلْبَابِ:  ’’ہوش مند لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘

            سورۃ البقرۃ کی آیت: 164 ان الفاظ پر ختم ہوئی تھی:  لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ.  ’’اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘۔ یہاں ان لوگوں کو ’’اُولوا الالباب‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ ہدایت کا پہلا قدم ہے کہ کائنات کو دیکھو‘ مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرو 

کھول آنکھ ‘ زمیں دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ

مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!

یہ سب آیاتِ الٰہیہ ہیں‘ ان کو دیکھو اور اللہ کو پہچانو۔ اگلا قدم یہ ہے کہ جب اللہ کو پہچان لیا تو اب اُسے یاد رکھو۔ یعنی   َ

فقر قرآں اختلاطِ ذکر و فکر

فکر را کامل نہ دیدم ُجز بہ ذکر! 

UP
X
<>