July 11, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 94

قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

آپ (ان سے) کہئے کہ : ’’ اگر اﷲ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو‘‘

  آیت 94:    قُلْ اِنْ کَانَتْ لَـکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ:   (اے نبی! ان سے) کہیے: اگر تمہارے لیے آخرت کا گھر اللہ کے پاس خالص کر دیا گیا ہے دوسرے لوگوں کوچھوڑ کر

            یعنی تمہارے لیے جنت مخصوص  (reserve)ہو چکی ہے اور تم مرتے ہی جنت میں پہنچا دیے جاؤ گے۔

             فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ:   تب تو تمہیں موت کی تمنا کرنی چاہیے اگر تم (اپنے اس خیال میں) سچے ہو۔  

            اگر تمہیں جنت میں داخل ہونے کا اتنا ہی یقین ہے پھر تو دنیا میں رہنا تم پر گراں ہونا چاہیے۔ یہاں تو بہت سی کلفتیں ہیں، یہاں تو انسان کو بڑی مشقت ّاور شدید کوفت اٹھانی پڑ جاتی ہے ۔ جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اس دنیا کے بعد آخرت کی زندگی ہے اور وہاں میرامقام جنت میں ہے تو اسے یہ زندگی اثاثہ (asset) نہیں،  ذمہ ّداری (liability) معلوم ہونی چاہیے۔ اسے تو دنیا قید خانہ نظر آنی چاہیے،  جیسے حدیث ہے کہ نبی کریم   نے فرمایا: ((اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ))   «دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے »۔ اگر کسی شخص کا آخرت پر ایمان ہے اور اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ خلوص پر مبنی ہے نہ کہ دھوکہ بازی پر تو اس کا کم سے کم تقاضا یہ  ہے کہ اسے دنیا میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی آرزو تو نہ ہو۔ اس کا جائزہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے،  ازروئے الفاظِ قرآنی:  بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہ بَصِیْرَۃٌ.  (القیٰمۃ: 14) «بلکہ آدمی اپنے لیے آپ دلیل ہے »۔ ہر انسان کو خوب معلوم ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ آپ کا دل آپ کو بتادے گا کہ آپ اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں یا آپ کا معاملہ خلوص و اخلاص پر مبنی ہے۔ اگر واقعتا خلوص اور اخلاص والا معاملہ ہے تو پھر تو یہ کیفیت ہونی چاہیے جس کا نقشہ اس حدیث نبوی میں کھینچا گیا ہے: ((کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ))   «دنیا میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر ہو» ۔ پھر تو یہ دنیا باغ نہیں قید خانہ نظر آنی چاہیے،  جس میں انسان مجبوراً رہتا ہے۔ پھر زاویۂ نگاہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے،  لہٰذا ایک معین ّمدت کے لیے یہاں رہنا ہے اور جو جو ذمہ داریاں ّاس کی طرف عائد کی گئی ہیں وہ ادا کرنی ہیں۔ لیکن اگر یہاں رہنے کی خواہش دل میں موجود ہے تو پھر یا تو آخرت پر ایمان نہیں یا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص پر مبنی نہیں۔ یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔

UP
X
<>