قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 93
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
اور وہ وقت یا د کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو بلند کر دیا (اور یہ کہا کہ) ’’ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور (جو کچھ کہا جائے اسے ہوش سے) سنو‘‘ کہنے لگے ’’ ہم نے (پہلے بھی) سن لیا تھا مگر عمل نہیں کیا تھا (اب بھی ایسا ہی کریں گے) ‘‘ اور (دراصل) ان کے کفرکی نحوست سے ان کے دلوں میں بچھڑا بسا ہوا تھا آپ (ان سے) کہئے کہ اگر تم مومن ہو تو کتنی بری ہیں وہ باتیں جو تمہارا ایمان تمہیں تلقین کر رہا ہے !
آیت 93: وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَـکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ: اور یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا اور تمہارے اوپر کوہِ طور کو معلق کر دیا تھا۔ ّ
خُذُوْا مَـآ اٰتَیْنٰــکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا: پکڑو اس کو جو ہم نے تم کو دیا ہے مضبوطی کے ساتھ اور سنو!
ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو۔
قَالُــوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا: انہوں نے کہا ہم نے سنا اور نا فرمانی کی۔
یعنی ہم نے سن تو لیا ہے، مگر مانیں گے نہیں! قومِ یہود کی یہ بھی ایک دیرینہ بیماری تھی کہ زبان کو ذرا سا مروڑ کر الفاظ کو اس طرح بدل دیتے تھے کہ بات کا مفہوم ہی یکسر بدل جائے۔ چنانچہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کے بجائے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔ حضرت موسیٰ کے ساتھ جو منافقین تھے ان کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ ان کی جب سرزنش کی جاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو کہا تھا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا آپ کی اپنی سماعت میں کوئی خلل ہو گا۔
وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ: اور پلا دی گئی ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت ان کے اس کفر کی پاداش میں۔
قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہ اِیْمَانُکُمْ: کہیے: بہت ہی ُبری ہیں یہ باتیں جن کا حکم دے رہا ہے تمہیں تمہارا ایمان
اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: اگر تم مؤمن ہو!
یہ عجیب ایمان ہے جو تمہیں ایسی ُبری حرکات کا حکم دیتا ہے۔ کیا ایمان کے ساتھ ایسی حرکتیں ممکن ہوتی ہیں؟
آگے پھر ایک بہت اہم آفاقی سچائی (universal truth) کا بیان ہو رہا ہے، جس کو پڑھتے ہوئے خود، دروں بینی (introspection)کی ضرورت ہے۔ یہود کو یہ زعم تھا کہ ہم تو اللہ کے بڑے چہیتے ہیں، لاڈلے ہیں، اس کے بیٹوں کی مانند ہیں، ہم اولیاء اللہ ہیں، ہم اس کے پسندیدہ اور چنیدہ لوگ ہیں، لہٰذا آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے ہے۔ چنانچہ ان کے سامنے ایک لٹمس ٹیسٹ (litmus test) رکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ میرے اور آپ کے لیے بھی ہے ۔