July 12, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 90

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ

بری ہے وہ قیمت جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے کہ یہ اﷲ کی نازل کی ہوئی کتاب کا صرف اس جلن کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اﷲ اپنے فضل کا کوئی حصہ (یعنی وحی) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہ رہا ہے (کیوں) اتار رہا ہے؟ چنا نچہ یہ (اپنی اس جلن کی وجہ سے) غضب بالائے غضب لے کر لوٹے ہیں اور کافر لوگ ذلت آمیز سزا کے مستحق ہیں

  آیت 90:    بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہ اَنْفُسَہُمْ:   بہت ُبری شے ہے جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو فروخت کر دیا  

            یعنی دنیا کا حقیر سا فائدہ،  یہاں کی حقیر سی منفعتیں،  یہاں کی مسندیں اور چودھراہٹیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہیں اور وہ اپنی فلاح و سعادت اور نجات کی خاطر ان حقیر سی چیزوں کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔

             اَنْ یَّــکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ:   کہ وہ انکار کر رہے ہیں اُس ہدایت کا جو اللہ نے نازل کی ہے  

             بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ:  صرف اس ضد کی بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے اپنے فضل (وحی ورسالت) میں سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے۔  

            یہود اس امید میں تھے کہ آخری نبی بھی اسرائیلی ہی ہو گا،  اس لیے کہ چودہ سو برس تک نبوت ہمارے پاس رہی ہے،  یہ  فترۃ  کا زمانہ ہے،  جيسے چھ سو برس گزر گئے،  اب آخری نبی آنے والے ہیں۔ ان کو یہ گمان تھا کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے ہوں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اور یہ فضل بنی اسماعیل پر ہو گیا۔ اس ضدم ضدا کی وجہ سے یہود عناد اور سرکشی پر اتر آئے۔ اس  «بَغْیًا»  کے لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ دین میں جو اختلاف ہوتا ہے اس کا اصل سبب یہی ضدم ضدا والا رویہ ہوتا ہے،  جسے قرآن مجید میں  «بَغْیًا»  کہا گیا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں کئی بار آیا ہے ۔  ّ

            عہد ِحاضر میں علم ِنفسیات (Psychology) میں ایڈلر کے مکتبہ ٔفکر کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا نقطہ ٔنظر یہ ہے کہ انسان کے جبلی افعال  (instincts)اور محرکات ّ (motives) میں ایک نہایت طاقتور محرک غالب ہونے کی طلب (Urge to dominate) ہے۔ چنانچہ کسی دوسرے کی بات ماننا نفس ِانسانی پر بہت گراں گزرتا ہے،  وہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے! «بَغْیًا»  کے معنی بھی حد سے بڑھنے اور تجاوز کرنے کے ہیں۔ دوسروں پر غالب ہونے کی خواہش میں انسان اپنی حد سے تجاوز کر جاتا ہے۔ یہی معاملہ یہود کا تھا کہ انہوں نے دوسروں پر رعب گانٹھنے کے لیے ضدم ضدا کی روش اختیار کی،  محض اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک شخص محمد عربی   کو اپنے فضل سے نواز دیا۔  ّ   َ

              فَـبَــآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ:   تو وہ لوٹے غضب پر غضب لے کر۔  

            یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب بالائے غضب کے مستحق ہو گئے۔

             وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ:    اور ایسے کافروں کے لیے سخت ذلت ّ آمیز عذاب ہے۔  

             مُھِیْنٌ   اہانت سے بنا ہے ۔ ان کی اس روش کی وجہ سے ان کے لیے اہانت آمیز عذاب مقرر ہے۔ ّ

UP
X
<>