July 12, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 89

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ

اور جب ان کے پاس اﷲ کی طرف سے وہ کتاب آئی (یعنی قرآن) جو اُس (تورات) کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے، (تو ان کا طرزِ عمل دیکھو!) باوجودیکہ یہ خود شروع میں کافروں (یعنی بت پرستوں) کے خلاف (اس کتاب کے حوالے سے) اﷲ سے فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے مگر جب وہ چیز آگئی جسے انہوں نے پہچان بھی لیا تو اس کا انکار کر بیٹھے۔ پس پھٹکار ہے اﷲ کی ایسے کافروں پر

آیت  89:    وَلَمَّا جَآءَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ:   اور جب آ گئی ان کے پاس ایک کتاب (یعنی قرآن) اللہ کے پاس سے  

             مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ:   جو اُس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اُن کے پاس (پہلے سے موجود)  ہے  

            یہ وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے کہ قرآن کریم ایک طرف تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور دوسری طرف وہ تورات اور انجیل کی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آیا ہے۔

             وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا:   اور وہ پہلے سے کفار کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔  

            ان کا حال یہ تھا کہ وہ اس کی آمد سے پہلے اللہ کی آخری کتاب اور آخری نبی   کے حوالے اور واسطے سے اللہ تعالیٰ سے کافروں کے خلاف فتح و نصرت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع،  بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ وہاں اوس اور خزرج کے قبائل بھی آباد تھے جو یمن سے آئے تھے اور اصل عرب قبائل تھے۔ پھر آس پاس کے قبائل بھی تھے۔ وہ سب اُمیین ّمیں سے تھے،  اُن کے پاس نہ کوئی کتاب تھی،  نہ کوئی شریعت اور نہ وہ کسی نبوت سے آگاہ تھے۔ ان کی جب آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں تو یہودی چونکہ سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے بزدل تھے لہٰذا ہمیشہ مار کھاتے تھے۔ اس پر وہ کہا کرتے تھے کہ ابھی تو تم ہمیں مار لیتے ہو،  دبا لیتے ہو،  نبی آخر الزمان  کے آنے کا وقت آ چکا ہے جو نئی کتاب لے کر آئیں گے۔ جب وہ آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ ہو کر جب تم سے جنگ کریں گے تو تم ہمیں شکست نہیں دے سکو گے،  ہمیں فتح پر فتح حاصل ہو گی۔ وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! اس نبی آخر الزمان کا ظہور جلدی ہو تا کہ اُس کے واسطے سے اور اُس کے صدقے ہمیں فتح مل سکے۔

            خزرج اور اوس کے قبائل نے یہود کی یہ دعائیں اور ان کی زبان سے نبی آخر الزمان   کی آمد کی پیشین گوئیاں سن رکھی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۱ نبوی کے حج کے موقع پر جب مدینہ سے جانے والے خزرج کے چھ افراد کو رسول اللہ   نے اپنی دعوت پیش کی تو انہوں نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ معلوم ہوتا ہے یہ وہی نبی ہیں جن کا یہودی ذکر کرتے ہیں،  تو اس سے پہلے کہ یہود ان پر ایمان لائیں، تم ایمان لے آؤ ! اس طرح وہ علم جو بالواسطہ طور پر ان تک پہنچا تھا ان کے لیے ایک عظیم سرمایہ اور ذریعہ ٔ نجات بن گیا۔ مگر وہی یہودی جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے،  آپ   کی آمد پر اپنے تعصب ّ اور تکبر ّکی وجہ سے آپ کے سب سے بڑھ کر مخالف بن گئے۔

             فَلَمَّا جَآءَ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہ:   پھر جب ان کے پاس آ گئی وہ چیز جسے انہوں نے پہچان لیا تو وہ اس کے منکر ہو گئے۔  

 

             فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ:   پس اللہ کی لعنت ہے ان منکرین پر۔  

UP
X
<>