July 14, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 81

بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

(آگ تمہیں) کیوں نہیں (چھوئے گی) ؟ جو لوگ بھی بدی کماتے ہیں اور ان کی بدی انہیں گھیر لیتی ہے تو ایسے لوگ ہی دوزخ کے باسی ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے

آیت  81:    بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً:  کیوں نہیں ، جس شخص نے جان بوجھ کر ایک گناہ کمایا ،

            لیکن اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے ، صغیرہ نہیں۔  سَیِّئَۃً  کی تنکیر  «تفخیم»  کا فائدہ بھی دے رہی ہے۔  

             وَّاَحَاطَتْ بِہ خَطِٓیْـئَتُہ:  اور اس کا گھیراؤ کر لیا اس کے گناہ نے ، 

            مثلاً ایک شخص سود خوری سے باز نہیں آ رہا ، باقی وہ نماز کا بھی پابند ہے اور ّتہجد کا بھی التزام کر رہا ہے تو اس ایک گناہ کی برائی اس کے گرد اس طرح چھا جائے گی کہ پھر اُس کی یہ ساری نیکیاں ختم ہو کر رہ جائیں گی۔  ہمارے مفسرین ّنے لکھا ہے کہ گناہ کے احاطہ کر لینے سے مراد یہ ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کر لیں کہ کوئی جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو ، حتیٰ کہ دل سے ایمان و تصدیق رخصت ہو جائے۔  علماء کے ہاں یہ اصول مانا جاتا ہے کہ  ( اَلْمَعَاصِیْ بَرِیْدُ الْـکُفْرِ )  یعنی گناہ تو کفر کی ڈاک ہوتے ہیں۔ گناہ پر مداومت کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ دل سے ایمان رخصت ہو جاتا ہے۔ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ، لیکن اندر سے ایمان ختم ہو چکا ہوتا ہے۔  جس طرح کسی دروازے کی چوکھٹ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اوپر لکڑی کا ایک باریک َپرت (veneer) چھوڑ جاتی ہے۔  

             فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ:  پس یہی ہیں آگ والے، 

              ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ:  وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے۔    

UP
X
<>