قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 71
قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ
موسیٰ نے کہا : اﷲ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو جو کام میں جت کر زمین نہ گاہتی ہواور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو پوری طرح صحیح سالم ہو جس میں کوئی داغ نہ ہو۔ انہوں نے کہا :ہاں ! اب آپ ٹھیک ٹھیک پتہ لے کر آئے ۔ اس کے بعد انہوں نے اسے ذبح کیا جبکہ لگتا نہیں تھا کہ وہ کر پائیں گے
آیت 71: قَالَ اِنَّہ یَـقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لاَّ ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَلاَ تَسْقِی الْحَرْثَ: فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے: وہ ایک ایسی گائے ہونی چاہیے کہ جس سے کوئی مشقت نہ لی جاتی ہو ، نہ وہ زمین میں ہل چلاتی ہو اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو۔
مُسَلَّمَۃٌ لاَّ شِیَۃَ فِیْہَا: وہ صحیح سالم یک رنگ ہونی چاہیے ، اُس میں (کسی دوسرے رنگ کا) کوئی داغ تک نہ ہو۔
قَالُوا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ: انہوں نے کہا اب آپ لائے ہیں ٹھیک بات۔
اب تو آپ نے بات پوری طرح واضح کر دی ہے۔
فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَـفْعَلُوْنَ: تب انہوں نے اُس کو ذبح کیا اور وہ لگتے نہ تھے کہ ایسا کرلیں گے۔
اب وہ کیا کرتے ، پے بہ پے سوالات کرتے کرتے وہ گھیراؤ میں آ چکے تھے ، لہٰذا با دلِ نخواستہ وہ اپنی مقدس سنہری گائے کو ذبح کرنے پر مجبور ہو گئے۔
یہاں واقعہ کی ترتیب تورات سے مختلف ہے اور ذبح بقرہ کا جو سبب تھا وہ بعد میں بیان ہو رہا ہے ، جبکہ تورات میں ترتیب دوسری ہے۔