July 16, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : آدم کی سجدہ کرو، چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافرو ں میں شامل ہو گیا

 آیت 34:  وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ:  اور یاد کرو جب ہم نے کہا فرشتوں سے کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب سجدے میں گر پڑے سوائے ابلیس کے۔

            یہاں ایک بات تو یہ سمجھئے کہ آدم ، کو تمام ملائکہ کے سجدے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا یہ صرف تعظیماً تھا؟ اور اگر تعظیماً تھا تو کیا آدمِ خاکی کی تعظیم مقصود تھی یا کسی اور شے کی تعظیم تھی؟ مکی سورتوں میں یہ بات دو جگہ بایں الفاظ واضح کی گئی ہے:   فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَـہ سٰجِدِیْنَ: (الحجر: ۲۹ و صٓ: ۷۲)  «پھر جب َمیں اس (آدم) کی تخلیق مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گر پڑنا اُس کے سامنے سجدے میں»۔  چنانچہ تعظیم اگر ہے تو آدمِ خاکی کی نہیں ہے ، اس کے اندر موجود  «روحِ ربانی» کی ہے ، جو ایک   Divine Element  یا  Divine Spark ہے ، جسے خود خالق نے  «مِنْ رُّوْحِیْ »  سے تعبیر فرمایا ہے۔

            دوسرے یہ کہ اس سجدے کی حکمت کیا ہے؟ اس کی عِلت اور غرض وغایت کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا: اس کائنات یعنی اس آفاقی حکومت کے کارندے تو فرشتے ہیں اور خلیفہ بنایا جا رہا ہے انسان کو ۔ لہٰذا جب تک یہ ساری سول سروس اس کے تابع نہ ہو وہ خلافت کیسے کرے گا! جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور کوئی فعل کرنا چاہتے ہیں تو اس فعل کے پورا ہونے میں ، اُس کے ظہور پذیر ہونے میں نه معلوم کون کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور فطرت کی کون کون سی قوتیں(forces) ہمارے ساتھ موافقت کرتی ہیں تو ہم وہ کام کر سکتے ہیں، اور ان سب پر فرشتے مأمور ہیں۔ ہر ایک کی اپنی اقلیم (domain) ہے۔ اگر وہ انسان کے تابع نہ ہوں تو خلافت کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ اسے خلافت دی گئی ہے ، یہ جدھر جانا چاہتا ہے جانے دو ، یہ نماز کے لیے مسجد میں جانا چاہتا ہے جانے دو ، یہ چوری کے لیے نکلا ہے نکلنے دو۔ انسان کو جو اختیار دیا گیا ہے اس کے استعمال میں یہ تمام قوتیں اس کے ساتھ موافقت کرتی ہیں تب ہی اُس کا کوئی ارادہ  ، خواہ اچھا ہو یا برا  ، پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ اس موافقت کی علامت کے طور پر تمام فرشتوں کو انسان کے آگے جھکا دیا گیا۔

            اس آیت میں   (اِلَّآ اِبْلِیْسَ)  «سوائے ابلیس کے» سے یہ مغالطہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید ابلیس بھی فرشتہ تھا۔ اس لیے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا۔ اس مغالطے کا ازالہ سورۃ الکہف میں کر دیا گیا جو سورۃ البقرۃ سے بہت پہلے نازل ہو چکی تھی۔ وہاں الفاظ آئے ہیں:  کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہ. (آیت:۵۰)  «وہ َجنوں میں سے تھا ، پس اس نے سرکشی کی اپنے ربّ کے حکم سے»۔ فرشتوں میں سے ہوتا تو نافرمانی کر ہی نہ سکتا۔ فرشتوں کی شان تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے۔ ازروئے الفاظِ قرآنی:   لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ. (التحریم)  «وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں»۔ جنات ّبھی انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے ایمان و کفر اور طاعت و معصیت دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ چنانچہ جنات میں نیک بھی ہیں بد بھی ہیں ، اعلیٰ بھی ہیں ادنیٰ بھی ہیں ، جیسے انسانوں میں ہیں۔ لیکن یہ  (عزازیل)  جو جن تھا ، علم اور عبادت دونوں کے اعتبار سے بہت بلند ہو گیا تھا اور فرشتوں کا ہم نشین تھا۔ یہ فرشتوں کے ساتھ اس طور پر شامل تھا جیسے بہت سے انسان بھی اگر اپنی بندگی میں ، زُہد میں ، نیکی میں ترقی کریں تو اُن کا عالم ِارواح کے ساتھ ، عالم ِملائکہ کے ساتھ اور ملا ٔاعلى  کے ساتھ ایک رابطہ قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح عزازیل بھی جن ہونے کے باوجود اپنی نیکی ، عبادت ، پارسائی اور اپنے علم میں فرشتوں سے بہت آگے تھا ، اس لیے  «مُعَلِّمُ الْـمَلَـکوت»  کی حیثیت اختیار کر چکا تھا اور اسے اپنی اس حیثیت کا بڑازعم تھا۔

            جیسا کہ عرض کیا گیا ، قرآن حکیم میں قصہ ٔآدم و ابلیس کے ضمن میں یہ بات سات مرتبہ آئی ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو ، سب جھک گئے مگر ابلیس نے سجدے سے انکار کر دیا۔ آیات زیر مطالعہ میں قصہ آدم و ابلیس ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ اگرچہ مصحف میں یہ پہلی مرتبہ آرہا ہے لیکن ترتیب ِنزولی کے اعتبار سے یہاں ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ آدم و ابلیس کا یہ قصہ سورۃ البقرۃ کے بعد سورۃ الاعراف میں ، پھر سورۃ الحجر میں ، پھر سوره بنی اسرائیل میں ، پھرسورۃ الکہف میں ، پھر سوره طٰہٰ میں اور پھر سوره صٓ میں آئے گا۔ یعنی یہ قصہ قرآن حکیم میں چھ مرتبہ مکی سورتوں میں آیا ہے اور ایک مرتبہ مدنی سورت سورۃ البقرۃ میں۔

            ابلیس کا اصل نام  (عزازیل)  تھا ، ابلیس اب اس کا صفتی نام ہے۔ اس لیے کہ اَبْلَسَ ، یُبْلِسُ کے معنی ہوتے ہیں مایوس ہو جانا۔ یہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہے اور جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے وہ شیطان ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اب میرا تو چھٹکارا نہیں ہے ، میری تو عاقبت خراب ہو ہی چکی ہے ، لہٰذا میں اپنے ساتھ اور جتنوں کو برباد کر سکتا ہوں کر لوں ۔ ع  ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے!  اب وہ شیطان اس معنی میں ہے کہ انسان کی عداوت اس کی گھٹی میں پڑ گئی۔ اُس نے اللہ سے اجازت بھی لے لی کہ مجھے مہلت دے دے قیامت کے دن تک کے لیے  اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ: تو میں ثابت کر دوں گا کہ یہ آدم اُس رُتبے کا حق دار نہ تھا جو اسے دیا گیا۔

               اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ:  اُس نے انکار کیا اور تکبر ّکیا۔   

            قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر اس کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ  خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہ مِنْ طِیْنٍ: (الاعراف:۱۲ و صٓ: ۷۶)  «میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے گارے سے بنایا» ۔ در حقیقت یہی وہ تکبر ّہے جس نے اسے رانده درگاہِ حق کر دیا:

تکبر عزازیل را خوار کرد   کہ در طوقِ لعنت گرفتار کرد           

               وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ: اور ہو گیا وہ کافروں میں سے   ۔ یا  اور تھا وہ کافروں میں سے۔   

            «کَانَ» عربی زبان میں دو طرح کا ہوتا ہے:  تامہ   اور  ناقصہ ۔ کَانَ ناقصہ کے اعتبار سے یہ معنی ہو سکتے ہیں کہ اپنے اس استکبار اور انکار کی وجہ سے وہ کافروں میں سے ہو گیا۔ جبکہ کَانَ  تامہ ّکے اعتبار سے یہ معنی ہوں گے کہ وہ تھا ہی کافروں میں سے۔ یعنی اس کے اندر سرکشی چھپی ہوئی تھی ، اب ظاہر ہو گئی۔ ایسا معاملہ کبھی ہمارے مشاہدے میں بھی آتا ہے کہ کسی شخص کی بدنیتی پر نیکی اور زُہد کے پردے پڑے رہتے ہیں اور کسی خاص وقت میں آ کر وہ ننگا ہو جاتا ہے اور اس کی باطنی حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔

UP
X
<>