July 17, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 35

وَقُلْنَا يَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ

اور ہم نے کہا: ’’ آدم ! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس مت جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے‘‘

آیت 35:    وَقُلْنَا یٰٓـاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ:  اور ہم نے کہا اے آدم! رہو تم اور تمہاری بیوی جنت میں 

            سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنت کون سی ہے؟ اکثر حضرات کے نزدیک یہ جنت کہیں آسمان ہی میں تھی اور آسمان ہی میں حضرت آدم  کی تخلیق ہوئی۔  البتہ یہ سب مانتے ہیں کہ یہ وہ جنت الفردوس نہیں تھی جس میں جانے کے بعد نکلنے کا کوئی سوال نہیں۔  اس جنت میں تو آخرت میں لوگوں کو جا کر داخل ہونا ہے اور اس میں داخلے کے بعد پھر وہاں سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔  ایک رائے یہ بھی ہے ، اور میرا رُجحان اسی رائے کی طرف ہے  کہ تخلیقِ آدم  اسی زمین پر ہوئی ہے۔  وہ تخلیق جن مراحل سے گزری وہ اِس وقت ہمارا موضوعِ بحث نہیں ہے۔  بائیولوجی اور وحی دونوں اس پر متفق ہیں کہ قشر ِارض (Crust of the Earth) یعنی مٹی سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے ۔  اس کے بعد کسی اونچے مقام پر کسی سرسبز و شاداب علاقے میں حضرت آدم   کو رکھا گیا ، جہاں ہر قسم کے میوے تھے ، ہر شے بافراغت ّمیسر تھی۔  ازروئے الفاظ قرآنی:  اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی وَاَنَّکَ لَا تَظْمَاُ فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی: (طٰہٰ) «یہاں تمہارے لیے یہ آسائشیں موجود ہیں کہ نہ تمہیں اس میں بھوک لگے گی نہ عریانی لاحق ہو گی۔  اور یہ کہ نہ تمہیں اس میں پیاس تنگ کرے گی نہ دھوپ ستائے گی»۔   حضرت آدم   اور ان کی بیوی کو وہاں ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔  البتہ یہ جنت صرف ایک demonstrationکے لیے تھی کہ انہیں نظر آ جائے کہ شیطان ان کا اور اُن کی اولاد کا ازلی دشمن ہے ، وہ انہیں ورغلائے گا اور طرح طرح سے وسوسہ اندازی کرے گا۔  اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کسی شخص کا انتخاب تو ہو گیا اوروہ  CSP cadre میں آ گیا ، لیکن اس کی تعیناتی (posting)سے پہلے اسے سول سروس اکیڈمی میں زیرتربیت رکھا جاتا ہے۔  واضح رہے کہ یہاں جو لفظ  ہبوط (اُترنا) آ رہا ہے وہ صرف اسی ایک معنی میں نہیں آتا ، اس کے دوسرے معانی بھی ہیں۔    یہ چیزیں پھر متشابہات میں سے رہیں گی۔    اس لیے ان کے بارے میں غور و فکر سے کوئی ایک یا دوسری رائے اختیار کی جا سکتی ہے۔    واللہ اعلم!

             وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا:  اور کھاؤ اس میں سے بافراغت جہاں سے چاہو۔     

            یہاں ہر طرح کے پھل موجود ہیں ، جو چاہو بلا روک ٹوک کھاؤ۔    

             وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ:  مگر اس درخت کے قریب مت جانا۔    

            یہاں پر اس درخت کا نام نہیں لیا گیا ، اشارہ کر دیا گیا کہ اس درخت کے قریب بھی مت جانا۔  

             فَتَـکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ:  ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔      

            تم حد سے گزرنے والوں میں شمار ہو گے۔    

            اب اس کی بھی حکمت سمجھئے کہ یہ اس demonstration کا حصہ ّہے کہ دنیا میں کھانے پینے کی ہزاروں چیزیں مباح ہیں ، صرف چند چیزیں حرام ہیں۔ اب اگر تم ہزاروں مباح چیزوں کو چھوڑ کر حرام میں منہ مارتے ہو تو یہ نا فرمانی شمار ہو گی۔  اللہ نے مباحات کا دائرہ بہت وسیع رکھا ہے ۔    چند رشتے ہیں جو بیان کر دیے گئے کہ یہ حرام ہیں ، محرماتِ ابدیہ ہیں ، ان سے تو شادی نہیں ہو سکتی ، باقی ایک مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے دنیا کے کسی بھی کونے میں شادی کر سکتا ہے ، اس کے لیے کروڑوں options کھلے ہیں۔   پھر ایک نہیں، دو دو ، تین تین، چار چار تک عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے۔  اس کے باوجود انسان شادی نہ کرے اورزنا کرے ، تو یہ گویا اس کی اپنی خباثت ِنفس ہے۔  چنانچہ آدم و حوا  کو بتا دیا گیا کہ یہ پورا باغ تمہارے لیے مباح ہے، بس یہ ایک درخت ہے ، اس کے پاس نہ جانا۔   درخت کا نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔    یہ تو صرف ایک آزمائش اور اس کی demonstration تھی۔   

UP
X
<>