قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 166
إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ
جب وہ (پیشوا) جن کے پیچھے یہ لوگ چلتے رہے ہیں اپنے پیروکاروں سے مکمل بے تعلقی کا اعلان کریں گے اور یہ سب لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے اور ان کے تمام باہمی رشتے کٹ کر رہ جائیں گے
آیت 166: اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّـبَعُوْا: اُس وقت وہ لوگ جن کی (دنیا میں) پیروی کی گئی تھی اپنے پیروؤں سے اظہارِ براء ت کریں گے،
ہر انسانی معاشرے میں کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں، چاہے اربابِ اقتدار ہوں ، چاہے مذہبی مسندوں کے والی ہوں۔ لوگ انہیں اپنے پیشوا اور راہنما مان کر ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی ہرسچی جھوٹی بات پر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ جب عذابِ آخرت ظاہر ہو گا تو یہ پیشوا اور راہنما اس عذاب سے بچانے میں اپنے پیروؤں کے کچھ بھی کام نہ آئیں گے اور ان سے صا ف صاف اظہارِ براءت اور اعلانِ لا تعلقی کر دیں گے۔
وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ: اور وہ عذاب سے دو چار ہوں گے اور ان کے تمام تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔
جب جہنم ان کی نگاہوں کے سامنے آ جائے گی تو تمام رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ سورئہ عبس میں اس نفسا نفسی کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے: یَوْمَ یَـفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ ، وَاُمِّہ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہ وَبَنِیْـہِ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ. «اُس روز آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے ، اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے ۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا »۔ اسی طرح سورۃ المعارج میں فرمایا گیا ہے: یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَـفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ، وَصَاحِبَتِہ وَاَخِیْہِ، وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤیْہِ، وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِـیْہ. «مجرم چاہے گا کہ اُس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا ، اور روئے زمین کے سب انسانوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے »۔ یہاں فرمایا: تَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ: «ان کے سارے رشتے منقطع ہو جائیں گے »، یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ جن رشتوں کی وجہ سے ہم حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر رہے ہیں، جن کی دل جوئی کے لیے حرام کی کمائی کرتے ہیں اور جن کی ناراضی کے خوف سے دین کے راستے پر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں، یہ سارے رشتے اسی دنیا تک محدود ہیں اور اُخروی زندگی میں یہ کچھ کام نہ آئیں گے۔