قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 165
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ
اور (اس کے باوجود) لوگوں میں کچھ وہ بھی ہیں جو اﷲ کے علاوہ دوسروں کو اس کی خدائی میں اس طرح شریک قرار دیتے ہیں کہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسے اﷲ کی محبت (رکھنی چاہیئے) اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ اﷲ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں اور کاش کہ یہ ظالم جب (دنیا میں ) کوئی تکلیف دیکھتے ہیں اسی وقت یہ سمجھ لیا کریں کہ تمام تر طاقت اﷲ ہی کو حاصل ہے اور یہ کہ اﷲ کا عذاب (آخرت میں ) اس وقت بڑا سخت ہوگا
آیت 165: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا: اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر کچھ اور چیزوں کو اس کا ہم سر اور مد مقابل بنا دیتے ہیں
یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ: وہ ان سے ایسی محبت کرنے لگتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیے۔
یہ در اصل ایک فلسفہ ہے کہ ہر با شعور انسان کسی شے کو اپنا آئیڈیل، نصب العین یا آدرش ٹھہراتا ہے اور پھر اس سے بھر پور محبت کرتا ہے، اس کے لیے جیتا ہے، اس کے لیے مرتا ہے، قربانیاں دیتا ہے، ایثار کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی قوم کے لیے، کوئی وطن کے لیے اور کوئی خود اپنی ذات کے لیے قربانی دیتا ہے۔ لیکن بندئہ مؤمن یہ سارے کام اللہ کے لیے کرتا ہے ۔ وہ اپنا مطلوب و مقصود اور محبوب صرف اللہ کو بناتا ہے۔ وہ اُسی کے لیے جیتا ہے، اُسی کے لیے مرتا ہے: (اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. (الانعام) « بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے »۔ اس کے بر عکس عام انسانوں کا معاملہ یہی ہوتا ہے کہ :
می تراشد فکر ما ہر دم خداوندے دگر
رست از یک بند تا افتاد در بندے دگر
انسان اپنے ذہن سے معبود تراشتا رہتا ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور ان کے لیے قربانیاں دیتا ہے۔ یہ مضمون سورۃ الحج کے آخری رکوع میں زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّـلّٰہِ: اور جو لوگ واقعتًا صاحب ِایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!
یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ کوئی شے اگر اللہ سے بڑھ کر محبوب ہو گئی تو وہ تمہاری معبود ہے ۔ تم نے اللہ کو چھوڑ کر اُس کو اپنا معبود بنا لیا، چاہے وہ دولت ہی ہو۔ حدیث نبوی ہے: ((تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ)) « ہلاک اور برباد ہو جائے درہم و دینار کا بندہ »۔ نام خواہ عبد الرحمن ہو ، حقیقت میں وہ عبد الدینار ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ دینار آنا چاہیے، خواہ حرام سے آئے یا حلال سے، جائز ذرائع سے آئے یا نا جائز ذرائع سے۔ چنانچہ اس کا معبود اللہ نہیں، دینار ہے۔ ہندو نے لکشمی دیوی کی مورتی بنا کر اسے پوجنا شروع کر دیا کہ یہ لکشمی دیوی اگر ذرا مہربان ہو جائے گی تو دولت کی ریل پیل ہو جائے گی۔ ہم نے اس درمیانی واسطے کو بھی ہٹا کر براہِ راست ڈالر كو پوجنا شروع کر دیا اور اس کی خاطر اپنے وطن اوراپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہاں کتنے ہی لوگ سسک سسک کر مر جاتے ہیں اور آخری لمحات میں ان کا بیٹا یا بیٹی ان کے پاس موجود نہیں ہوتا بلکہ دیارِ غیر میں ڈالر کی پوجا میں مصروف ہوتا ہے۔
وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا: اور اگر یہ ظالم لوگ اُس وقت کو دیکھ لیں جب یہ دیکھیں گے عذاب کو تو (ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ) قوت تو ساری کی ساری اللہ کے پاس ہے،
یہاں «ظلم» شرک کے معنی میں آیا ہے اور ظالم سے مراد مشرک ہیں۔
وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ: اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔
اُس وقت آنکھ کھلے گی تو کیا فائدہ ہو گا؟ اب آنکھ کھلے تو فائدہ ہے۔