قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 164
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، رات دن کے لگاتار آنے جانے میں، ان کشتیوں مین جو لوگوں کے فائد ے کا سامان لے کر سمندر میں تیرتی ہیں، اس پانی میں جواﷲ نے آسمان سے اتارا اور ا س کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے، اور ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع دار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں کیلئے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں ۔
اب جو آیت آ رہی ہے اس کے مطالعہ سے پہلے ایک بات سمجھ لیجیے کہ سورۃ البقرۃ کا نصف ثانی جو بائیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور جس کا آغاز انیسویں رکوع سے ہوا ہے، اس میں ترتیب کیا ہے۔ سورۃ البقرۃ کے پہلے اٹھارہ رکوعوں کی تقسیم عمودی (verticle) ہے۔ یعنی چار رکوع اِدھر، دس درمیان میں، پھر چار اُدھر۔ لیکن انیسویں رکوع سے اب اُفقی (horizontal) تقسیم کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس حصے ّمیں چار مضامین تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ چار لڑیاں َہیں جن کو بٹ کر رسّی بنا دیا گیا ہے۔ ان چار میں سے دو لڑیاں تو شریعت کی ہیں، جن میں سے ایک عبادات کی اور دوسری احکام و شرائع کی ہے کہ یہ واجب ہے، یہ کرنا ہے، یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے وغیرہ وغیرہ۔ احکام و شرائع میں خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ معاشرتِ انسانی کی بنیاد یہی ہے۔ لہٰذا اس سورت میں آپ دیکھیں گے کہ عائلی قوانین کے ضمن میں تفصیلی احکام آئیں گے۔ جبکہ دوسری دو لڑیاں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی ہیں۔ جہاد بالنفس کی آخری انتہا قتال ہے جہاں انسان نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کار زار میں حاضر ہو جاتا ہے۔
اب ان چاروں مضامین یا چاروں لڑیوں َکو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ فرض کیجیے ایک سرخ لڑی ہے، ایک پیلی ہے، ایک نیلی ہے اور ایک سبز ہے ، اور ان چاروں لڑیوں کو ایک رسّی کی صورت میں بٹ دیا گیا ہے۔ آپ اس رسّی کو دیکھیں گے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔ پہلے سرخ، پھر پیلا، پھر نیلا اور پھر سبز نظر آئے گا۔ لیکن اگر رسّی کے بل کھول دیں تو ہر لڑی مسلسل نظر آئے گی۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ کے نصف آخر میں عبادات، احکامِ شریعت، جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کے چار مضامین چار لڑیوں کی مانند گتھے ہوئے ہیں۔ یہ چاروں لڑیاں تانے بانے کی طرح بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اسی بنتی ُمیں بہت بڑے بڑے پھول موجود ہیں۔ یہ پھول قرآن مجید کی عظیم ترین اور طویل آیات ہیں ، جن کی نمایاں ترین مثال آیت الکرسی کی ہے۔ ان عظیم آیات میں سے ایک آیت یہاں بیسویں رکوع کے آغاز میں آ رہی ہے، جسے میں نے «آیت الآیات» کا عنوان دیا ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی کسی اور آیت میں اس قدر مظاہر ِفطرت (phenomena of nature)یکجا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مظاہرِ فطرت کو اپنی آیات قرار دیتا ہے۔ آسمان اور زمین کی تخلیق، رات اور دن کا اُلٹ پھیر، آسمان کے ستارے اور زمین کی نباتات، یہ سب آیات ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے، لیکن یہاں بہت سے مظاہر فطرت کو جس طرح ایک آیت میں سمویا گیا ہے یہ حکمت ِقرآنی کا ایک بہت بڑا پھول ہے جو ان چار لڑیوں کی بنتی ُکے اندر آ گیا ہے۔
آیت 164: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ: یقینا آسمان اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے اُلٹ پھیر میں،
وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ: اور اُن کشتیوں (اور جہازوں) میں جوسمندر میں (یا دریاؤں میں) لوگوں کے لیے نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں
وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآء مِنْ مَّآءٍ: اور اُس پانی میں کہ جو اللہ نے آسمان سے اتارا ہے
فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا: پھر اس سے زندگی بخشی زمین کو اس کے ُمردہ ہو جانے کے بعد .
بے آب و گیاہ زمین پڑی تھی، بارش ہوئی تو اسی میں سے روئیدگی آ گئی۔
وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ: اور ہر قسم کے حیوانات (اور چرند پرند) اس کے اندر پھیلا دیے۔
وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ: اور ہواؤں کی گردش میں
ہواؤں کی گردش کے مختلف انداز اور مختلف پہلو ہیں۔ کبھی شمالاً جنوباً چل رہی ہے، کبھی مشرق سے آ رہی ہے، کبھی مغرب سے آ رہی ہے۔ اس گردش میں بڑی حکمتیں کار فرما ہیں۔
وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ: اور ان بادلوں میں جو معلق ّ کر دیے گئے ہیں آسمان اور زمین کے درمیان
لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ: یقینا نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں۔
ان مظاہر ِفطرت کو دیکھو اور ان کے خالق اور ّمدبر کو پہچانو! ان آیاتِ آفاقی پر غور و فکر اور ان کے خالق کو پہچاننے کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے اور جس تک عام طور پر لوگ نہیں پہنچ پاتے اب اگلی آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔ نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ پھر محبوب اللہ ہی ہو، شکر اسی کا ہو، اطاعت اسی کی ہو، عبادت اسی کی ہو۔ جب سورج میں اپنا کچھ نہیں، اسے اللہ نے بنایا ہے اور اسے حرارت عطا کی ہے، چاند میں کچھ نہیں، ہوائیں چلانے والا بھی وہی ہے تو اور کسی شے کے لیے کوئی شکر نہیں، کوئی عبادت نہیں، کوئی ڈنڈوت نہیں، کوئی سجدہ نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ہی مطلوب و مقصود بن جائے، وہی محبوب ہو۔ ( لَا مَحْبُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ، لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ) جن لوگوں کی یہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی وہ کسی اور شے کو اپنا محبوب و مطلوب بنا کر اس کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ خدا تک نہیں پہنچے تو : (اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں) کے مصداق اپنے نفس ہی کو معبود بنا لیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں نے اپنی قوم کو معبود بنا لیا اور قوم کی برتری اور سر بلندی کے لیے جانیں بھی دے رہے ہیں۔ بعض نے وطن کو معبود بنا لیا ۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے سمجھا ہے کہ اِس دَور کا سب سے بڑا بت ُ وطن ہے۔ ان کی نظم وطنیّت ملاحظہ کیجیے:::
اِس دَور میں مَے اور ہے، جام اور ہے ،
جم اور ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے!
اگلی آیت میں تمام معبودانِ باطل کی نفی کر کے ایک اللہ کو اپنا محبوب اور مطلوب و مقصود بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔