قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 153
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، بیشک اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
سورۃ البقرۃ کے انیسویں رکوع سے اب اُمت ِمسلمہ سے براہِ راست خطاب ہے۔ اس سے قبل اس اُمت کی غرضِ تأسیس بایں الفاظ بیان کی جا چکی ہے : لِـتَـکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا: (آیت :143) تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے ۔ گویا اب تم ہمیشہ ہمیش کے لیے ٌمحمد رسول اللہ اور نوعِ انسانی کے درمیان واسطہ ہو۔ ایک حدیث میں علماء حق کے بارے میں فرمایا گیا ہے: ((اِنَّ الْعُلَمَاءَ ھُمْ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ)) <یقینا علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں >۔ اس لیے کہ اب نبوت تو ختم ہو گئی خاتم المرسلین ٌمحمد رسول اللہ پر، لیکن یہ آخری کتاب قیامت تک رہے گی، اس کو پہنچانا ہے، اس کو عام کرنا ہے، اور صرف تبلیغ سے نہیں عمل کر کے دکھانا ہے۔ وہ نظام عملاً قائم کر کے دکھانا ہے جو محمد عربی نے قائم کیا تھا، تب حجت قائم ہو گی۔ اس کے لیے تمہیں قربانیاں دینی ہوں گی ، مشکلات جھیلنی ہوں گی، جان و مال کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ آرام سے گھر بیٹھے ، ٹھنڈے پیٹوں حق نہیں آ جائے گا، کفر اس طرح جگہ نہیں چھوڑے گا۔ کفر کو ہٹانے کے لیے ، باطل کو ختم کرنے کے لیے اور حق کو قائم کرنے کے لیے تمہیں تن من دھن لگانے ہوں گے۔ چنانچہ اب پکار آ رہی ہے :
آیت 153: یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ: اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔
پانچویں رکوع کی سات آیات کو میں نے بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں بمنزلہ ٔفاتحہ قرار دیا تھا۔ وہاں پر یہ الفاظ آئے تھے: وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاِنَّہَا لَـکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ، الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰـقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّہُمْ اِلَـیْہِ رٰجِعُوْنَ. «اور مدد چاہو صبر اور نماز سے، اور یقینا یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں، جو گمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں »۔ اب یہی بات اہل ایمان سے کہی جا رہی ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ: جان لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معیت ّسے کیا مراد ہے! ایک بات تو متفق علیہ ہے کہ اللہ کی مدد، اللہ کی تائید، اللہ کی نصرت ان کے شامل حال ہے۔ باقی یہ کہ جہاں کہیں بھی ہم ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے، لیکن خود اس کا فرمان ہے کہ « ہم تو انسان سے اُس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں »۔ (قٓ: 16)