قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 151
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ
(یہ انعام ایسا ہی ہے) جیسے ہم نے تمہارے درمیان ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتاہے اور تمہیں وہ باتیں سکھا تا ہے جو تم نہیں جانتے تھے
آیت 151: کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ: جیسے کہ ہم نے بھیج دیا ہے تمہارے درمیان ایک رسول خود تم میں سے،
یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا: وہ تلاوت کرتا ہے تم پر ہماری آیات
وَیُزَکِّیْکُمْ: اور تمہیں پاک کرتا ہے (تمہارا تزکیہ کرتا ہے)
وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ: اور تمہیں تعلیم دیتا ہے کتاب اور حکمت کی
وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ: اور تمہیں تعلیم دیتا ہے ان چیزوں کی جو تمہیں معلوم نہیں تھیں۔
یہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا یاد کر لیجیے جو آیت: 129 میں مذکور ہوئی۔ اس دعا کا ظہور تین ہزار برس بعد بعثت ِمحمدی کی شکل میں ہو رہا ہے۔ یہاں ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی دعا میں جو ترتیب تھی، یہاں اللہ نے اس کو بدل دیا ہے۔ دعا میں ترتیب یہ تھی: «تلاوتِ آیات، تعلیم ِکتاب و حکمت، پھر تزکیہ»۔ یہاں پہلے «تلاوتِ آیات، پھر تزکیہ اور پھر تعلیم ِکتاب و حکمت آیا ہے»۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے جو بات کہی وہ بھی غلط تو نہیں ہو سکتی، لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی تنفیذ شدہ (imposed)صورت یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ۔ اس لیے کہ تزکیہ ّمقدم ہے ، اگر نیت صحیح نہیں ہے تو تعلیم کتاب و حکمت مفید نہیں ہو گی، بلکہ گمراہی میں اضافہ ہو گا۔ نیت کج ہے تو گمراہی بڑھتی چلی جائے گی۔ تزکیہ کا حاصل اخلاص ہے، یعنی نیت درست ہو جائے۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی جتنا بڑا عالم ہو گا وہ اتنا بڑا شیطان بھی بن سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بڑے بڑے فتنے عالموں نے ہی اٹھائے ہیں۔ دین اکبری یا دین ِالٰہی کی تدوین کا خیال تو اکبر کے باپ دادا کو بھی نہیں آ سکتا تھا، یہ تو ابو الفضل اور فیضی جیسے علماء تھے جنہوں نے اسے یہ پٹی ّپڑھائی۔ اسی طرح غلام احمد قادیانی کو بھی الٹی پٹیاں پڑھانے والا حکیم نور الدین تھا، جو بہت بڑا اہل حدیث عالم تھا۔ تودر حقیقت کوئی جتنا بڑا عالم ہو گا اگر اس کی نیت کج ہو گئی تو وہ اتنا ہی بڑا فتنہ اٹھا دے گا ۔ اس پہلو سے تزکیہ مقدم ّ ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہی مضمون سورئہ آل عمران میں اور پھرسورۃ الجمعہ میں بھی آیا ہے ، وہاں بھی ترتیب یہی ہے: (۱) تلاوتِ آیات (۲) تزکیہ (۳) تعلیم ِکتاب و حکمت۔