قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 127
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اﷲ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ :) ’’ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرمالے ۔ بیشک تو اور صرف تو ہی ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے ولا ہے
آیت 127: وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ: اور یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل ہمارے گھر کی بنیادوں کو اٹھا رہے تھے۔
باپ بیٹا دونوں بیت اللہ کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے۔ یہاں لفظ «قَوَاعِدَ» جو آیا ہے اسے نوٹ کیجیے، یہ قاعدہ کی جمع ہے اور بنیادوں کو کہا جاتا ہے ۔ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کے اصل معمار اور بانی نہیں ہیں۔ کعبہ سب سے پہلے حضرت آدم نے تعمیر کیا تھا۔ سورئہ آل عمران (آیت: 96) میں الفاظ آئے ہیں: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ: «بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا یہی ہے جو مکہ میں ہے»۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت آدم کے زمانے سے لے کر حضرت ابراہیم تک، کم و بیش چار ہزار برس کے دوران روئے ارضی پر کوئی مسجد تعمیر نہ ہوئی ہو؟ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا سب سے پہلا گھر یہی کعبہ تھا۔ امتدادِ زمانہ سے اس کی صرف بنیادیں باقی رہ گئی تھیں، اور چونکہ یہ وادی میں واقع تھا جو سیلاب کا راستہ تھا، لہٰذا سیلاب کی وجہ سے اس کی سب دیواریں بہہ گئی تھیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے ان بنیادوں کو پھر سے اٹھایا۔ سورۃ الحج میں یہ مضمون تفصیل سے آیا ہے۔
جب وہ ان بنیادوں کو اٹھا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے،
رَبَّـنَا تَقَبَّلْ مِنَّا: اے ہمارے ربّ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔
ہماری اس کوشش اور ہماری اس محنت و مشقت کو قبول فرما! جس وقت حضرت ابراہیم بیت اللہ کی تعمیر کر رہے تھے اُس وقت حضرت اسماعیل کی عمر لگ بھگ تیرہ برس تھی، آپ اس کام میں اپنے والد محترم کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ: یقینا تو ُسب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔