June 15, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 121

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی جبکہ وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہوں جیسا اس کی تلاوت کا حق ہے تو وہ لوگ ہی (درحقیقت) اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کا انکار کرتے ہوں تو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں

آیت 121:   اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰـہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہ حَقَّ تِلاَوَتِہ:   وہ لوگ جنہیں ہم  نے کتاب دی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔  

            اس پر میں نے اپنے کتابچے  مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق میں بحث کی ہے کہ تلاوت کا اصل حق کیا ہے۔ ایک بات جان لیجیے کہ تلاوت کا لفظ  جو قرآن نے اپنے لیے اختیار کیا ہے،  بڑا جامع لفظ ہے ۔  «تَـلَا  یَـتْلُوْ»  کا معنی پڑھنا بھی ہے اور « تَــلَا یَـتْــلُوْ»  کسی کے پیچھے پیچھے چلنے (to follow) کو بھی کہتے ہیں۔ سورۃ الشمس کی پہلی دو آیات ملاحظہ کیجیے:  وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا  وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰٹہَا.  «قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آتا ہے »۔ جب آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو آپ اس کے متن (text)  کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بعض لوگ جو زیادہ ماہر نہیں ہوتے،  کتاب پڑھتے ہوئے اپنی انگلی ساتھ ساتھ چلاتے ہیں تاکہ نگاہ اِدھرسے اُدھر نہ ہو جائے،  ایک سطر سے دوسری سطر پر نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کی تلاوت کا اصل حق یہ ہو گا کہ آپ اس کتاب کو  follow کریں،  اسے اپنا امام بنائیں،  اس کے پیچھے چلیں،  اس کا اتباع ّکریں،  اس کی پیروی کریں،  جس کی ہم دعا کرتے ہیں:  وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً  «اور اسے میرے لیے امام اور روشنی اور ہدایت اور رحمت بنا دے!» اللہ تعالیٰ اس قرآن کو ہمارا امام اُسی وقت بنائے گا جب ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم اس کتاب کے پیچھے چلیں گے۔

              اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہ:   وہی ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔  

            یعنی جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کریں اور اُس کی پیروی بھی کریں۔ اور جو نہ تو تلاوت کا حق ادا کریں اور نہ کتاب کی پیروی کریں،  لیکن وہ دعویٰ کریں کہ ہمارا ایمان ہے اس کتاب پر تو یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ از روئے حدیث نبوی:  ((مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہ))  جس شخص نے قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کر لیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں ہے ۔

             وَمَنْ یَّــکْفُرْ بِہ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ:   اور جو اس کا کفر کرے گا تو  وہی لوگ ہیں خسارے میں رہنے والے۔  

            اب یہود کے ساتھ اس سلسلۂ کلام کا اختتام ہو رہا ہے جس کا آغاز چھٹے رکوع سے ہوا تھا۔ اس سلسلۂ کلام کے آغاز میں جو دو آیات آئی تھیں انہیں میں نے بریکٹ سے تعبیر کیا تھا۔ وہی دو آیات یہاں دوبارہ آ رہی ہیں اور اس طرح گویا بریکٹ بند ہو رہی ہے۔

UP
X
<>