June 15, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 120

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

اور یہودو نصاریٰ تم سے اس وقت تک ہرگزراضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کروگے ۔ کہہ دو حقیقی ہدایت تو اﷲ ہی کی ہدایت ہے اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگرکہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کر لی تو تمہیں اﷲ سے بچانے کیلئے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار

آیت 120:    وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَــتَّبِعَ مِلَّـتَہُمْ:   اور (اے نبی! آپ کسی مغالطے میں نہ رہیے) ہرگز راضی نہ ہوں گے آپ سے یہودی اور نہ نصرانی جب تک کہ آپ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی۔    ّ

            لہٰذا آپ ان سے اُمید منقطع کر لیجیے۔ اس لیے کہ زیادہ اُمید ہو تو پھر مایوسی ہو جاتی ہے۔ اقبال نے بندئہ مؤمن کے بارے میں بہت خوب کہا ہے:  ع

اس کی اُمیدیں قلیل،  اس کے مقاصد جلیل!

مقصد اونچا ہو،  لیکن امید قلیل رہنی چاہیے۔ اللہ چاہے گا تو ہو جائے گا،  نہیں چاہے گا تو نہیں ہو گا۔ بندئہ مؤمن کا کام اپنی حد تک اپنا فرض ادا کر دینا ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش اگر اپنے دل میں پالیں گے تو کسی عجلت پسندی میں گرفتار ہو جائیں گے اور کسی راہِ یسیر یا راہِ قصیر (short cut) کے ذریعے منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اپنے آپ کو بھی برباد کر لیں گے۔

             قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی:  کہہ دیجیے ہدایت تو بس اللہ کی ہدایت ہے۔  

جو اللہ نے بتلایا ہے وہی سیدھا راستہ ہے۔

             وَلَئِنِ اتَّـبَعْتَ اَہْوَآءَہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَکَ مِنَ الْعِلْمِ:  اور (اے نبی  !) اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اُس علم کے بعد جو آپ کے پاس آچکا ہے  

            اگر بفرضِ محال آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی کہ چلو کچھ لو کچھ دو کا معاملہ کر لو،  کچھ ان کی بات مانو کچھ اپنی بات منوا لو،  تو یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہو گا۔ مکہ میں قریش کی طرف سے اس طرح کی پیشکش کی جاتی تھی کہ کچھ اپنی بات منوا لیجیے،  کچھ ہماری مان لیجیے  compromise کر لیجیے،  اور اب مدینہ میں یہود کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ چنانچہ اس پر متنبہ کیا جا رہا ہے۔  ّ

             مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ:   تو نہیں ہو گا اللہ کے مقابلے میں آپ کے لیے کوئی مدد گار اور نہ حمایتی۔   (معاذ اللہ!)

            حق کی تلوار بالکل عریاں ہے۔ اللہ کا عدل ہر فرد کے لیے الگ نہیں ہے،  یہ فرد سے فرد تک بدلتا نہیں ہے۔ ایسے ہی ہر قوم اور ہر اُمت کے لیے قانون تبدیل نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک قوم سے کوئی ایک معاملہ ہو اور دوسری قوم سے کوئی دوسرا معاملہ ۔ اللہ کے اُصول اور قوانین غیر مبدل ہیں۔ اس ضمن میں اس کی ایک سنت ہے جس کے بارے میں فرمایا:  فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَـبْدِیْلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا: (فاطر: 43) «پس تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ  گے ، اور تم اللہ کے طریقے کو ہرگز ٹلتا ہوا نہیں پاؤ  گے»۔ 

UP
X
<>