قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 119
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ
(اے پیغمبر!) بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم (جنت کی) خوشخبری دو اور (جہنم سے) ڈراؤ۔ اور جو لوگ (اپنی مرضی سے) جہنم (کا راستہ) اختیار کر چکے ہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی
آیت 119: اِنَّـآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا: (اے نبی!) بے شک ہم نے آپ کو بھیجا ہے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر
آپ كی بنیادی حیثیت یہ ہے کہ آپ اہل ِحق کو جنت اور اس کی تمام تر نعمتوں کی بشارت دیں، اور جو غلط راستے پر چل پڑیں، کفر کریں، منافقت میں مبتلا ہوں، ملحد ہوں اور بد عملی کریں اُن کو آپ خبردار کر دیں کہ ان کے لیے جہنم تیار کر دی گئی ہے۔ آپ کا کام دعوت، ابلاغ، تبلیغ اور نصیحت ہے۔
وَّلاَ تُسْأَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ: اور آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا جہنمیوں کے بارے میں۔
جو لوگ اپنے طرزِ عمل کی بنا پر جہنم کے مستحق قرار پا گئے ہیں ان کے بارے میں آپ ذمہ ّدار نہیں ہیں۔ آپ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ کیوں جہنم میں پہنچ گئے؟ آپ کے ہوتے ہوئے یہ جہنمی کیوں ہو گئے؟ نہیں، یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ کون جنت میں جانا چاہتا ہے اور کون جہنم میں، یہ آدمی کا اپنا فیصلہ ہے۔ آپ کا کام حق کو واضح کر دینا ہے، اس کی وضاحت میں کمی نہ رہ جائے، حق واضح ہو جائے، کوئی اشتباہ باقی نہ رہے، بس یہ ذمہ داری آپ کی ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔ انسان اگر اپنی اصل مسؤولیت سے زیادہ ذمہ داری اپنے سر پر ڈال لے تو خواہ مخواہ مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کی بہت سی جماعتیں اسی طرح کی غلطیوں کی وجہ سے غلط راستے پر پڑ گئیں اور پوری کی پوری تحریکیں برباد ہو گئیں۔ رسول اللہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ علماء یہود ایمان لے آئیں اور جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ ان کے لیے آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کی ہوں گی۔ جیسے مکی دَور میں آپ دعائیں مانگتے تھے کہ اے اللہ! عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو تو میری جھولی میں ڈال دے اور اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت عطا فرما!