قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 117
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے توبس اتنا کہتا ہے کہ :’’ ہوجا‘‘ چنانچہ وہ ہو جاتی ہے
آیت 117: بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ: وہ نیا پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا۔
وہ بغیر کسی شے کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ابداع اور خلق میں فرق نوٹ کیجیے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال بنیادی طور پر تین ہیں: ابداع، خلق اور تدبیر۔ ابداع سے مراد ہے عدمِ محض سے کسی چیز کو وجود میں لانا، جسے انگریزی میں creation ex nihilo سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ خلق ایک چیز سے دوسری چیز کا بنانا ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے گارے سے انسان بنایا، آگ سے ّجنات بنائے اور نور سے فرشتے بنائے، یہ تخلیق ہے۔ تو بدیع وہ ذات ہے جس نے کسی مادئہ تخلیق کے بغیر ایک نئی کائنات پیدا فرما دی۔ ہمارے ہاں بدعت وہ شے کہلاتی ہے جو دین میں نہیں تھی اور خواہ مخواہ لا کر شامل کر دی گئی۔ جس بات کی جڑ بنیاد دین میں نہیں ہے وہ بدعت ہے۔
وَاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَـیَکُوْنُ: اور جب وہ کسی معاملے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے بس یہی کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے۔