قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 113
وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیا د نہیں، اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیادنہیں، حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ (مشرکین) جن کے پاس کوئی (آسمانی) علم ہی سرے سے نہیں ہے انہوں نے بھی ان (اہلِ کتاب) کی جیسی باتیں کہنی شروع کر دی ہیں ۔ چنانچہ اﷲ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہے ہیں
آیت 113: وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَـیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْئٍ: یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں ہیں.
ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے۔
وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَـیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ: اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کسی بنیاد پر نہیں ہیں
اُن کی کوئی بنیاد نہیں ہے، یہ بے بنیاد لوگ ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
وَّہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰـبَ: حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھ رہے ہیں۔
عہد نامہ ٔ قدیم (Old Testament) یہودیوں اور عیسائیوں میں مشترک ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے اور امریکہ میں جدید عیسائیت کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت جو اُبھر رہی ہے وہ عیسائیت کو یہودیت کے رنگ میں رنگ رہی ہے۔ رومن کیتھولک مذہب نے تو بائبل سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا اور سارا اختیار پوپ کے ہاتھ میں آ گیا تھا، لیکن پروٹسٹنٹس (Protestants) نے پھر بائبل کو قبول کیا۔ اب اس کی منطقی انتہا یہ ہے کہ عہد ٔنامہ قدیم پر بھی ان کی توجہ ہو رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اسے بھی ہم اپنی کتاب مانتے ہیں اور اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ امریکہ میں ہم نے ایک سیمینار منعقد کیا تھا، جس میں ایک یہودی عالم نے کہا تھا کہ اس وقت اسرائیل کو سب سے بڑی نصرت و حمایت امریکہ کے اُن عیسائیوں سے مل رہی ہے جو Evengelists کہلاتے ہیں اور وہاں پر ایک بڑا فرقہ بن کر اُبھر رہے ہیں۔ بہرحال یہ اُن کا طرزِ عمل بیان ہوا ہے۔
کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ: اسی طرح کہی تھی اُن لوگوں نے جو کچھ بھی نہیں جانتے ، ان ہی کی سی بات۔
یہاں اشارہ ہے مشرکینِ مکہ کی طرف ۔
فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ: پس اللہ تعالیٰ فیصلہ کر د ے گا ان کے ما بین قیامت کے دن ان تمام باتوں کا جن میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔
اب دیکھئے، اس سلسلۂ کلام کی بقیہ آیات میں بھی اگر چہ خطاب تو بنی اسرائیل ہی سے ہے، لیکن اب یہاں پر اہل ِمکہ سے کچھ تعریض شروع ہو گئی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم کا تذکرہ آئے گا ، پھر تحویل ِقبلہ کا ذکر آئے گا۔ بیت اللہ چونکہ اُس وقت مشرکین مکہ کے قبضے میں تھا، لہٰذا اس حوالے سے کچھ متعلقہ مضامین آ رہے ہیں اور تحویل ِقبلہ کی تمہید باندھی جا رہی ہے۔ تحویلِ قبلہ در اصل اس بات کی علامت تھی کہ اب وہ سابقہ اُمت مسلمہ معزول کی جا رہی ہے اور اس مقام پر ایک نئی اُمت ، اُمت ِمحمد کی تقرری ّعمل میں لائی جا رہی ہے۔ اسی حوالے سے «کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ» کے الفاظ میں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ کیا گیا۔