June 22, 2025

قرآن کریم > البقرة >surah 2 ayat 112

بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

کیوں نہیں ؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی اپنا رُخ اﷲ کے آگے جھکا دے اور وہ نیک عمل کرنے والا ہو، اسے اپنا اجر اپنے پروردگار کے پاس ملے گا۔ اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے

اب یہاں پر پھر ایک عالمگیر صداقت  (universal truth) بیان ہو رہی ہے:

 آیت 112:    بَلٰی  مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ:   کیوں نہیں،  ہر وہ شخص جو اپنا چہرہ اللہ کے سامنے جھکا دے اور وہ محسن ہو  

            اس کا سر تسلیم خم کر دینے کا رویہ صدق و سچائی اور حسن کردار پر مبنی ہو۔ سر کا جھکانا منافقانہ انداز میں نہ ہو،  اس کی اطاعت جزوی نہ ہوکہ کچھ مانا کچھ نہیں مانا۔  َ   ّ

             فَلَـہ اَجْرُہ عِنْدَ رَبِّہ:   تو اُس کے لیے اُس کا اجر محفوظ ہے اُس کے ربّ  کے پاس۔  

             وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ:   اور ایسے لوگوں کو نہ تو کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ ہی وہ کسی حزن و ملال سے دو چار ہوں گے۔  

            یہ دوسری آیت ہے کہ جس سے کچھ لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نجاتِ اُخروی کے لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔ اس کا جواب پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ :

             اوّلًا:      قرآن حکیم میں ہر مقام پر ساری چیزیں بیان نہیں کی جاتیں۔ کوئی شے ایک جگہ بیان کی گئی ہے تو کوئی کہیں دوسری جگہ بیان کی گئی ہے۔ اس سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو اس کو پورے کا پورا ایک کتاب کی حیثیت سے لینا ہو گا۔

            ثانیاً:     یہ سارا سلسلۂ کلام دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے اور اس سے پہلے یہ الفاظ واضح طور پر آ چکے ہیں:  «وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَـکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہ» چنانچہ یہ عبارت ضرب کھا رہی ہے اس پورے کے پورے سلسلۂ مضامین سے جو اِن دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے۔ 

UP
X
<>